دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
بخدا اگر ہم ویسے ہی مسلمان ہوتے ، جیسا اسلام چاہتا ہے تو ہمارے اقوال وافعال اور احوال ہی کفار کے لئے کافی ہوجاتے۔ اور اگر نہ بھی ہوتے تو کم ازکم ان کی عداوت تو ہم سے کم ہوجاتی ۔ہمارے اسلاف کے تویہ کارنامے تھے کہ غیر قومیں ان میں خود بخود شامل ہوتی تھیں ۔(ضرورت تبلیغ :ص۳۰۷)اسلامی اخلاق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کا نمونہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب یہودی پڑوسی تک کو ہدیہ دیا کرتے تھے اور بیماری میں اس کی عیادت کیا کرتے تھے ۔ ایک یہودی کا قرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر آتا تھا اس نے مسجد میں آکر مانگا اس وقت آپ کے پاس موجود نہ تھا ۔ آپ نے فرمایا: پھر لے لینا۔یہودی نے کہا میں تو لے کر جائوں گا ۔اللہ اکبر! کس درجہ حسن معاشرت تھی کہ رعیت کا ادنیٰ آدمی بھی جو چاہے کہے اور آپ باوجودہر طرح قدرت واختیار کے انتقام نہیں لیتے ۔ صحابہ نے کچھ کہنا بھی چاہا۔ حضور نے روک دیا اور فرمایا: ’’اِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالاً‘‘ کہ صاحب حق کو تقاضے کا حق ہے ۔چنانچہ وہ بیٹھا رہا۔ اور رات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر بھی نہ جانے دیا ۔ توآپ مسجد ہی میں رہے صبح کو نماز پڑھی۔ یہ حال دیکھ کر نماز کے بعد اس یہودی نے کہا میں نے ’’تورات‘‘ میں پڑھا تھا کہ نبی آخر الزماں کے یہ یہ صفات ہیں ۔ میں نے اور توسب صفات دیکھ لی تھیں ، صرف صفت حلم (بردباری وتحمل) کا امتحان باقی تھا سوآج اس کا بھی امتحان ہوگیا ۔واقعی آپ سچے نبی ہیں (کلمہ پڑھا) اور مسلمان ہوگیا۔