دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
بِیَدِہٖ فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ‘‘۔ یعنی جو شخص تم میں سے کسی منکر کو دیکھے اس کو چاہئے کہ اپنے ہاتھ سے اصلاح کردے اس کی قدرت نہ ہوتو زبان سے ورنہ قلب سے ۔ ظاہر ہے کہ استطاعت باللسان (زبان سے قدرت ) ہر وقت حاصل ہے پھر اس کے انتفاء کی تقدیر کب محقق ہوگی۔ یعنی اگر کسی فعل کی فرضیت کے لئے محض فعل پر قادر ہونا کافی ہو اور اس سے جو خطرات پیش آنے والے ہوں ان کی مدافعت پر قادر ہونا شرط نہ ہوتو زبان سے انکار کرنا ہر حال میں شرط ہونا چاہئے ۔کیونکہ زبان کا چلانا ہر وقت ہماری قدرت میں ہے پھر وہ کونسی صورت ہوگی ۔جس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر زبان سے مٹانے کی قدرت نہ ہوتو دل سے مٹادے ۔ اس سے ثابت ہوا کہ استطاعت سے مراد یہ ہے کہ اس فعل پر قدرت ہونے کے ساتھ اس پر ایسا خطرہ بھی نہ ہو جس کی مقاومت ومدافعت ومقابلہ بظن غالب عادۃً ناممکن ہو۔ ایک شرط یہ بھی ہے کہ اس دفاع کے بعد اس سے زیادہ شر میں مبتلا نہ ہوجائیں ۔ (افادات اشرفیہ درمسائل سیاسیہ:ص ۱۰)چند ضروری مسائل ،قدرت بالید وباللسان کافرق ایک تفصیل قدرت میں یہ ہے کہ دستی قدرت میں (یعنی جس شخص کو کسی منکر کے اصلاح کی، ہاتھ سے روکنے کی قدرت ہو) اس میں تو کبھی اس امر ونہی کا ترک (چھوڑنا) جائز نہیں ۔ اور زبانی قدرت میں (یعنی جس کو صرف زبان سے کہنے کی قدرت ہو اس کو )نفع سے مایوسی کے وقت (یعنی اصلاح کی امید نہ ہونے کی صورت میں ) اس کا ترک کرنا جائز ہے ۔