دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
یہ وضع شریعت کے خلاف ہے ۔اس نے کہا کہ شریعت کی یوں کی یوں ۔ یعنی ماں کی گالی دی۔ میں بہت پچھتا یا ، کہ اتنا فحش آدمی ہے ۔میں نے اس سے کیوں کہا۔ میں سمجھتا ہوں کہ شریعت کی گستاخی ان ناصحین کی بدولت ہوئی ہے ۔یہ خواہ مخواہ انہیں چھیڑ تے ہیں ۔ اور خود بھی برا بنتے ہیں ۔ اور شریعت کو بھی برا کہلواتے ہیں ۔ (التبشیر ملحقہ دعوت وتبلیغ:ص ۳۸۵)فتنہ وفساد نہ ہونے کی شرط امر بالمعروف کرو مگر تکبر کے طور پر نہ کرو اس سے اور فتنہ فساد ہوتا ہے ۔اور اگر تکبر کے طور سے نہ بھی ہوتب بھی جہاں فتنہ فساد کا اندیشہ ہو وہاں بھی کچھ مت کہو ۔ (التبشیر ملحقہ دعوت وتبلیغ:ص ۳۸۴) جس مسئلہ پر زور دینے (اور اس کو بیان کرنے ) میں فتنہ کھڑا ہوتا ہو، اس پر گفتگو بند کردی جائے ۔کیوں کہ اس خاص دینی مصلحت کی حمایت کرنے سے فتنہ دبانا(زیادہ ) ضروری ہے ہاں مقتداء اسلام کو شریعت کی ہر بات صاف صاف کہنا چاہئے، جیسے امام احمد بن حنبل ؒ نے خلق قرآن کے متعلق صاف صاف کہہ دیا تھا ۔اورجو ایسا بڑا مقتدا نہ ہو اس کو بحث کی ضرورت نہیں ۔جہاں مخاطب سمجھدار منصف مزاج ہو وہاں صحیح مسئلہ بیان کردے ۔ اورجہاں بحث مباحثہ کی صورت ہوتو خاموش رہے۔ (الافاضات الیومیہ:ص ۳۹۰؍ج۷) فرمایا بہت سے مسائل ایسے ہیں کہ گووہ فی نفسہٖ صحیح ہوں مگر مفاسد کی طرف مفضی ہوجاتے ہیں (یعنی فساد کا ذریعہ بن جاتے ہیں )جہاں عوام کو ان کی اطلاع ہوئی اور آفتیں کھڑی ہوئیں ۔ایسے مسائل نہیں بیان کرنے چاہئے ۔ میں نے بہت دفعہ بیان کیا ہے کہ علم دین بعض لوگوں کو مضر ہوتا ہے ۔ تویہاں صرف ضرر ِعلم سے بچانا مقصود ہے ۔اس لئے کتمان علم (کہ اعتراض) بھی نہ ہوگا ۔ (ملفوظات اشرفیہ:ص ۳۴۳)