دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
لگ جائے ۔جیسا اسلاف کا طریقہ تھا ،کہ علماء صوفیاء ،امراء ، وغرباء، خواندہ وناخواندہ (پڑھے لکھے واَن پڑھ) سب کو یہی دھن تھی کہ جس کو جو احکام معلوم ہوں دوسروں تک پہونچایا جائے ۔علماء وعظ وتذکیر کرتے تھے صوفیاء اپنی مجلسوں میں نورِ باطن اور پاکیزہ باتوں سے بندگانِ خدا کو خدا کی طرف متوجہ کرتے تھے ۔ تاجر وغیرہ اپنے معاملات اور ملاقات میں اللہ کو نہ بھولتے تھے ۔اگر یہ کام تنہا علماء کے ذمہ ڈالدیا جاتا تو حق کی روشنی ان مقامات میں نہ پہنچ سکتی تھی جہاں کسی عالم یا فاتح کا قدم نہیں پہنچا ۔ لہٰذا تمام مسلمان آج ہی سے اس دُھن میں لگ جائیں کہ جتنا جس کو اسلام کے متعلق علم ہے اس کو دوسروں تک پہنچائے ۔ اور غیب سے نصرت (ومدد) کا امیدوار رہے۔ ’’اِنْ تَنْصُرُاللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ‘‘ اگر تم اللہ کے دین کی مدد کروگے اللہ تمہاری مدد کرے گا ، اور تمہارے قدم جماد ے گا۔ (تجدید تعلیم وتبلیغ :ص۱۷۷)امت کی بدحالی اور مسلسل تبلیغی کام جاری رکھنے کی ضرورت میرے نزدیک یہ کام اتنا ضروری ہے کہ بطور حفظ ماتقدم کے، یعنی آئندہ کی حفاظت کے لئے اسے ہمیشہ جاری رکھنا چاہئے ۔ کیوں کہ مسلمانوں میں بعض جگہ اس قدر جہالت بڑھی ہوئی ہے کہ مُردے تک بلا نماز جنازہ کے دفن کردیتے ہیں تبلیغ وتعلیم نہ ہونے سے انہیں کچھ بھی خبر نہیں ۔(ضرورت تبلیغ:ص ۲۱۸) بعض دیہات والوں کا اسلام نہایت نازک اور کمزور ہے ۔بعض لوگوں کو نماز روزہ کی توکیا خبر ہوتی ان کو کلمہ تک بھی نہیں آتا۔ ان لوگوں میں اسلام کی تبلیغ کی سخت ضرورت ہے۔ (التواصی بالحق:ص ۱۸۹) مجھے گجنیرکا ایک واقعہ یاد آیا۔ میں نے وہاں جاکر خود دیکھا کہ وہ برائے نام ہی مسلمان ہیں ، میں نے ان سے پوچھا کہ میاں تم کون لوگ ہو؟ مسلمان ہو؟کہنے لگے ہم