دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
جائے، اس صورت میں مبلغ کی تنخواہ وغیرہ کا معاملہ اس عالم یا انجمن سے وابستہ ہوگا۔ مگر اب توغضب یہ ہے کہ مسلمان یوں چاہتے ہیں ، کہ علماء خود ہی روپیہ جمع کریں ، اور خود ہی مبلغ تجویز کریں ، اور سب اپنے گھروں میں بے فکر بیٹھے رہیں ۔ صاحبو! علماء اس طرح نہیں کرسکتے ، اور جو ایسا کرتے ہیں ، اچھا نہیں کرتے ، چندہ کرنا علماء کا کام نہیں ، یہ کام دنیا والوں کا ہے، اور اس کا انتظام سب مسلمانوں کے ذمہ ہے ۔تنخواہ دار مبلغین مقرر کرنے کی صورتیں اگر کام کرنا ہوتو میرے نزدیک عام چندہ کرنے کے بجائے اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ایک ایک شخص ہی ایک ایک مبلغ کی تنخواہ مقرر کردے اور اپنے متعلق انتظام رکھے ۔ اور جن کو زیادہ وسعت نہ ہو، وہ دو، دو ،چار، چار ،دس، دس،پانچ ،پانچ ہم خیال اور ہم مشرب مل کر ایک مبلغ کا خرچ برداشت کرلیں ۔ اور کسی عالم کو مبلغ مقرر کرلیں ،اور حساب وکتاب اپنے ہی متعلق رکھیں ، پھر نہ خیانت کاڈر ہے ،نہ غبن کا خوف۔ البتہ مبلغ کسی عالم کی رائے سے منتخب کریں ، اس میں خود رائی نہ کریں ،کسی عالم سے پوچھ لیں ، کہ ہمارے پاس سرمایہ موجود ہے ، آپ بتلائیے کون مبلغ اس کام کے لائق ہے ۔ آپ تجویز کردیجئے ، ہم خود اس کا خرچ دیں گے، یہ صورت بہت اچھی ہے ، جس پر مالدار لوگ بغیر کسی انجمن کے واسطے کے خود بھی عمل کرسکتے ہیں ، پھر کسی انجمن یا مولوی لیڈر کو گالی بھی نہ دے سکیں گے ۔مگرسب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جس سے کام لیا جائے وہ اس کے اہل ہوں ، ایسوں کو دین کی خدمت سپرد نہ کرو ، جن کو اصلاح کی توفیق نہیں ۔ دوسرے کو جو ہدایت کرے گا ، پہلے اس کو خود بھی تومتبع شریعت ہونا چاہئے۔ آسان ترکیب یہ ہے کہ علماء سے انتخاب کرائیے عالم کو عالم ہی خوب پہچانتا ہے۔