دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
صاحبو! اخلاص حاصل کرو اس سے بلا قصد شہرت بھی ہوگی اور عزت بھی۔ (دیکھو) نام کا کعبہ تو اور لوگوں نے بھی بنایا تھا جو ظاہری زیب وزینت میں اس سے کہیں زیادہ تھا ۔مگر اس کا کہیں نام ونشان بھی نہیں رہا، چنانچہ ایک کعبہ تو حضورﷺ سے پہلے یمن میں بناتھا ۔جس کے بانیوں نے اس سچے کعبہ کو اس کی بے رونقی کے سبب اس کو ڈھانے کا ارادہ کیا تھا جس پر غیبی عذاب سے تباہ ہوئے،اور اس سچے کعبہ پر بہت سی آفتیں نازل ہوئیں مگر پھر بھی اس میں وہی آب وتاب ہے ،اور اُس مصنوعی کعبہ کو کوئی جانتا بھی نہیں ۔ (الاتمام لنعمۃ الاسلام:ص ۱۲۰،۱۱۶)اخلاص کی علامت اور مخلص وغیر مخلص کی پہچان علامہ شعرانیؒ نے اخلاص کی ایک علامت لکھی ہے وہ یہ کہ جو کام تم کررہے ہو اگر کوئی دوسرا اس کام کا کرنے والا تم سے اچھا اس بستی میں آجائے (یا پیدا ہوجائے ) اور وہ کام ایسا ہو جو علی العین (یعنی ہر ایک پر )واجب نہ ہو، جیسے مسجد ومدرسہ کا اہتمام یا وعظ کہنا وغیرہ وغیرہ تو تم کو اس کے آنے کی خوشی ہو، رنج نہ ہو بلکہ تم خود لوگوں کو اس کے پاس بھیجوکہ وہاں جائو، وہ مجھ سے بہتر ہیں ۔ اور سارا کام خوشی کے ساتھ دوسرے کے حوالہ کرکے خود ایک گوشہ میں بیٹھ جائو ۔ اور دل میں خدا کا شکر ادا کرو کہ اس نے ایسے آدمی کو بھیج دیا جس نے تمہارا بوجھ بٹوالیا۔ اگر یہ حالت ہوتب تو واقعی تم مخلص ہو مگر اب تو کسی عالم کی بستی میں کوئی دوسراعالم چلاآئے جس کی طرف عوام کا رجوع ہونے لگے تو جلتے مرتے ہیں اور دل سے یہ چاہتے ہیں کہ اس شخص سے کوئی ایسی بات ظاہر ہو جس سے عوام بدگمان ہوجائیں اور اس کو چھوڑدیں ، اور سمجھتے ہیں کہ بس تمام لوگوں کو ہماری ہی طرف رجوع کرنا چاہئے ۔کسی اور کی طرف رخ بھی نہ کرنا چاہئے ۔اس حالت میں تم ہرگز مخلص نہیں ہوبلکہ اخلاص سے مفلس ہو۔ (التبلیغ ترجیح الآخرۃ:ص ۲۴۸؍ج۲)