دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
طلبہ ومدرسین کے لئے پڑھنا پڑھانا بھی تبلیغ ہے مختلف اوقات میں تبلیغ کے مختلف طریقے ہیں ۔ مثلاً اس وقت (اے طلبہ مدرسہ !) آپ لوگوں کا پڑھنا بھی تبلیغ ہے ۔ اگر نیت اچھی ہو’’اِنَّمَا لْاَعْمَالُ بِالنِّیَات‘‘ (اعمال کا دار مدار نیت پر ہے ) اگر آپ کی نیت یہ ہو کہ پڑھنے سے فارغ ہوکر امر بالمعروف کروں گا۔ تویہ پڑھنا بھی تبلیغ کا شعبہ ہے ۔اگر یہ نیت نہ ہوتو پھر تبلیغ نہیں ۔ غرض اچھی نیت سے اس وقت یہی کتابیں پڑھنا بیشک اصل تبلیغ ہے ۔اور میں نے ’’اس وقت‘‘ کی قید اس لئے لگائی ہے کہ پہلے زمانہ میں صحابہ وتابعین کو مروجہ تدریس (پڑھنے پڑھانے )کی ضرورت نہیں ۔ ان کا تو اس کے بغیر کام چلتا تھا ۔کیوں کہ اس وقت حافظے تیز تھے اور دینداری بھی تھی اور اس وقت اس کی ضرورت اس لئے ہے کہ اگر کتابیں مدوّن نہ ہوں ۔اور آج کل لوگوں کا نہ حافظہ ویسا ہے نہ ویسا تدین ہے ۔نہ ان کے قول پر ان جیسا اعتماد ہے ۔پھر زبانی کوئی مضمون حدیث وفقہ کا بیان کیا جاتا تو سامعین کو ہرگز تسلی نہ ہوتی ۔اور خیال ہوتا کہ یہ جو کچھ کہتے ہیں ٹھیک بھی ہے یا یوں ہی الٹ پلٹ ہانک رہے ہیں ۔اگر کتابیں مدوّن نہ ہوتیں تو بڑا خلط مبحث ہوتا ۔دین میں بڑا فساد پھیلتا۔ اور جب ان چیزوں کی ضرورت ثابت ہوگئی ، کیوں کہ ان کے بغیر کام نہیں چلتا ۔ چنانچہ اگر کتابیں نہ ہوں توسلف کی باتیں ہم تک پہونچنے کی کوئی صورت نہیں ۔ اور بغیر مدارس قائم کئے ہوئے کتابوں کی تعلیم ممکن نہیں لہٰذا یہ بدعت نہیں ہے ۔بلکہ سنت ہے ۔ کیوں کہ اس درس تدریس سے بھی مقصود تبلیغ ہی ہے خواہ بالواسطہ یا بلا واسطہ ۔چنانچہ بلا واسطہ توتبلیغ مخاطب اوّل کو ہے یعنی طلبہ کو ۔ اور بالواسطہ مخاطب ثانی کو یعنی عوام کو ۔ سویہ درس تدریس (مدارس میں پڑھنا پڑھانا )تبلیغ کا ااتنا بڑا فرد ہے مگر ہم (مدرسہ والے )تبلیغ کی نیت نہ کرنے سے اس کے ثواب سے محروم ہیں ’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَاتْ‘‘