دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
۔اگر سارا عالم بھی ان کے خلاف ہوجائے تب بھی وہ شریعت سے تجاوز نہ کرے گا ۔ چاہے اس میں اس کی عزت ہو یا ذلت ہو۔ (التواصی بالحق:ص ۱۹۳)علماء کی ماتحتی میں کام کرنیکی ضرورت جو علماء احکام کے جاننے والے ہیں ، اور بے غرض ہیں ان کو مقتدا بنائو ، ان کو تابع نہ بنائو ۔ تبلیغ کے کام میں ان کو آگے کرو ، تم ساتھ ساتھ رہو ، اور ان کے مشورہ سے ہر کام کرو، پھر کبھی تو وہ خود (تبلیغ میں ) جائیں گے اور کبھی وہ خود نہ جائیں گے ۔بلکہ تم کو بھیجیں گے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی توغزوہ میں خود تشریف لے جاتے تھے اور کبھی ایک شخص کو سردار (امیر)بناکر چند صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھیجتے تھے ۔یہ نظیر ہے (شریعت کے مطابق) کام کرنے کی۔ (التواصی بالحق:ص ۱۹۵) یہ ضروری نہیں کہ ہر جگہ علماء خود ہی تبلیغ کے لئے جائیں ۔ جیسا کہ عوام نے سمجھ رکھا ہے کہ علماء کے ذمہ ہے کہ وہ تمام ملک کا اور تمام دیہاتوں کا دورہ کریں ۔سویا د رکھو! اس طرح کام نہیں ہوسکتا ۔حق تعالیٰ فرماتے ہیں :’’وَمَاکَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَافَّۃً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَائِفَۃٌ لَیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْنِ‘‘۔(پ۱۰، سورہ توبہ) یعنی جہاد کے لئے سب مسلمانوں کو نہیں جانا چاہئے بلکہ ایک جماعت جائے تاکہ باقی لوگ دین کا علم حاصل کریں ۔ شریعت کا حکم تو یہ ہے کہ سارے آدمی ایک ہی طرف نہ جھکیں ۔ بلکہ ایک بڑے فرقہ (بڑی جماعت) میں سے چھوٹی سی جماعت اس کام کے لئے جائے ۔باقی لوگ فقہ اور دین حاصل کریں ۔ (التواصی بالحق:ص ۱۹۵)علماء مبلغین ومصلحین کی سختی برداشت کرنا مجھے عوام سے شکایت ہے کہ اگر علماء ان کے ساتھ سختی کرتے ہیں تو ان کو اس سے