دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
اتحاد واختلاف کے حدود فرمایا کہ نااتفاقی اس واسطے بری ہے کہ یہ دین کو مضر ہے اور اگر دین کو مفید ہو گو دنیا کو مضر ہوتو وہ بری نہیں ۔چنانچہ ایک نااتفاقی وہ بھی ہے جس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اختیار فرمایا تھا ۔حق تعالیٰ فرماتے ہیں :’’قَدْکَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃ فِی اِبْرَاہِیْمِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اِذْقَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَائُ مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَابَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَائَ حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَحْدَہٗ‘‘۔(پ۲۸،سورہممتحنہ) ترجمہ: تمہارے لئے ابراہیم میں اور ان لوگوں میں جو کہ ان کے شریک حال تھے ایک عمدہ نمونہ ہے ، جب کہ ان سب نے اپنی قوم سے کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن کو تم اللہ کے سوا معبود سمجھتے ہوان سے بیزار ہیں ، ہم تمہارے منکر ہیں ، اور ہم میں اور تم میں ہمیشہ کے لئے عداوت اور بغض ظاہر ہوگیا ، جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہ لائو ۔(بیان القرآن) اور ایک اتفاق وہ تھا جس کے بارے میں ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں :وَقَالَ اِنَّمَا اتَّخَذْتُمُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْثَانَا مَّوَدَّۃَ بَیْنِکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکْفُرُ بَعْضُکُمْ بِبَعْضٍ۔ وَیَلْعَنُ بَعْضُکُمْ بَعْضًا وَمَاوٰ کُمُ النَّارُ۔(عنکبوت) اور ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ تم نے جو خدا کو چھوڑ کر بتوں کو تجویز کررکھا ہے ، پس یہ تمہارے باہمی دنیا کے تعلقات کی وجہ سے ہے ۔ پھر قیامت میں تم میں ایک دوسرے کا مخالف ہوجائے گا ، اور ایک دوسرے پر لعنت کرے گا اور تمہاراٹھکانہ دوزخ ہوگا ۔ (بیان القرآن) اس سے صاف معلوم ہوا کہ ابراہیم علیہ السلام کے مقابلہ میں جو کفار تھے ان میں آپس میں اتحاد واتفاق کامل طور سے تھا ۔ مگر کیا اس اتفاق کو کوئی محمود (پسندیدہ) کہہ سکتا ہے؟ ہر گز نہیں ۔ بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو اس اتفاق کی بنیادیں اکھاڑ کر پھینک دی تھیں ، کیونکہ یہ اتفاق حق کے خلاف تھا۔