دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
دوزخی نہ رہے ۔اور جب اس میں کامیابی نہیں ہوتی تھی تو آپ کو صدمہ ہوتا تھا ۔اس صدمہ کے دفعہ کرنے کے لئے یہ ارشاد ہوا ہے کہ آپ اس کی کچھ فکر نہ کریں اور نہ آپ اپنی جان کھپائیں ۔ ارشاد خداوندی ہے: ’’وَلَوْشَائَ رَبُّکَ لِاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیْعًا اَفَاَنْتَ تُکْرِہٗ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ ‘‘۔ اگر آپ کا رب چاہتا تو سب کو ہدایت ہوجاتی ۔کیا آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کرسکتے ہیں ؟ استفہام انکار کے لئے ہے یعنی آپ کا کام کوشش کرنا ہے ۔اور کوشش پر پھر خدا جسے توفیق دے گا ایمان لے آئے گا ، آپ مجبور کیوں کرتے ہیں ۔ کوئی شخص بغیر خدا کے حکم کے مومن نہیں ہوسکتا ۔ (ضرورت تبلیغ:ص ۳۰۹)عنایت خداوندی اب شاید یہ کہو گے کہ پھر ہمیں کوشش کرنے کو کیوں کہاگیا ۔سو اس لئے کہاگیا تاکہ تم کو اجروثواب ملے ۔دین سے تمہارا تعلق ظاہر ہو، محبت کے آثار نمایاں ہوں ۔ یہ توان کی کمال عنایت ورحمت ہے کہ انہوں نے تمہارے ثواب کے لئے ایک بہانہ بتلادیا ہے ۔باقی ثمرہ (اور ہدایت) تو انہیں کا تصرف ہے ۔بس تمہاری نیک نامی کے واسطے بظاہر تمہارے متعلق یہ کام کردیا ہے کہ ذراسی کوشش کرکے مقبول (اور مستحق ثواب) ہوجائوگے ۔ورنہ اصل کام (یعنی ہدایت دینا) تووہ خود کرتے ہیں ، وہی (دین کے )محافظ ہیں ۔ اسلئے غم کبھی نہیں کرنا چاہئے ۔ (ضرورت تبلیغ:ص ۳۱۰)