دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
السلام کی تعلیم تو وہی علوم تھے ان کو نہ کتاب پڑھنے کی ضرورت تھی نہ وہ اس کے محتاج تھے کہ کتاب سامنے رکھ کر دوسروں کو پڑھائیں ۔ کیونکہ وہ حقائق کو بغیر اصطلاحات کی مدد کے سمجھانے پر قادر تھے وہ معقول کو محسوس بنادیتے تھے اس لئے ان کو کتابیں پڑھنے اور پڑھانے کی ضرورت نہ تھی ۔ پھر بعد میں صحابہ بھی حضرات انبیاء علیہم السلام کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ تھے وہ بھی اس کے محتاج نہ تھے بعد میں جب حفظ میں کمی آئی اور علوم وہبیہ کی استعداد کم ہوگئی تو علوم کو کتابوں میں مدوّن کیا گیا اور اس کی ضرورت محسوس ہوئی کہ کتابیں پڑھی اور پڑھائی جائیں ۔ مگر اس کی ضرورت اسی بات کے واسطے ہوئی کہ کتابوں سے علم حاصل کرکے عوام کو صحیح علوم کی تبلیغ کریں ، غلط سلط باتیں نہ بتائیں ۔ اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ کتابیں پڑھانے ہی کو مقصود سمجھ لو، اور تبلیغ وانذار کو چھوڑ کر بیٹھ جائو ۔ (حقوق وفرائض:ص ۱۱۱)دین میں تبلیغ اصل ہے دین میں تبلیغ اصل ہے اور درس وتدریس اس کے مقدمات ہیں ، مگر شرط یہ ہے کہ بلا ضرورت کسی مفسدہ میں مبتلا ء نہ ہو ورنہ سکوت ہی بہتر ہے ۔(الافاضات الیومیہ:ص ۳۸؍ج۲) انبیاء علیہم السلام کا خاص فریضہ یہی رہا ہے باقی دین کے جتنے شعبے ہیں ، مثلاً افتاء، درس، تصنیف وغیرہ سب اسی کے آلات ومقدمات (ذرائع )ہیں خود تنظیم (حکومت) جس کی ضرورت سب کو تسلیم ہے اسلام میں وہ بھی اسی کے تابع اور اس کا مقدمہ ہے چنانچہ ارشاد ہے: ’’اَلَّذِیْنَ اِن مَّکَّنَّا ہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوْالصَّلوٰۃَ وَاٰتُوالزَّکوٰۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْ عَنِ الْمُنْکَرْ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرْ‘‘(حج) یہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر ہم ان کو دنیا میں حکومت دیدیں تو یہ لوگ خود بھی نماز کی پابندی کریں اور زکوٰۃ دیں اور دوسروں کو بھی نیک کاموں کے کرنے کو کہیں اور برے کاموں سے منع