دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
معلوم ہوتی ہے ۔ مگر اس کا راز یہ ہے کہ جب ایسی چیزوں کا غم کروگے جو تمہارے قبضـہ میں نہیں ہیں تو خواہ مخواہ سست ہوجائو گے ۔اور اس سے اصل کام میں خلل واقع ہوگا ۔تو خلل کو گوارہ کرنا یہ واقعی شفقت کی کمی ہے ۔اور کام جاری رکھنا تو عین شفقت ہے ۔(ضرورت تبلیغ :ص ۳۱۱)نصیحت میں مبالغہ کرنا اور بار بار کہنا پسندیدہ اور انبیاء کی سنت ہے انبیاء علیہم السلام کے حالات دیکھئے وہ کیا کرتے تھے ۔فرماتے ہیں :’’اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُوْمِنِیْنَ‘‘ کیا آپ لوگوں کو مجبور کریں گے کہ لوگ ایمان لے آئیں ۔ ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اکراہ (یعنی جبروز بردستی )تلوار سے نہیں کیا تھا ۔ بلکہ نصیحت سے اکراہ فرماتے تھے ۔یعنی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے تھے ۔اور نصیحت کرنے میں مبالغہ فرماتے تھے، اس مبالغہ فی النصیحت کو اللہ تعالیٰ نے برا نہیں بتلایا ۔بلکہ مبالغہ کے بعد ناصح (ومبلغ) کی طبیعت پر رنج کا اثر ہوتا ہے ۔اس سے آپ کو بچانا مقصود ہے ۔ کیونکہ فطری بات ہے کہ نصیحت کی ناکامی بلکہ ہر چیز کی ناکامی کا قلب پر ایک اثر ضرور ہوتا ہے ، اور جب رنج ہوتا ہے تو بعض اوقات اس کام ہی سے رہ جاتا ہے ،چنانچہ اسی لئے ارشاد ہے:’’وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ وَلَا تَکُ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُوْنَ‘‘ فرمایا ۔یعنی اتنی مشقت نہ کرو جس پر ثمرہ مرتب نہ ہونے سے رنج ہوجائے ۔ بلکہ مقصود کو دیکھنا چاہئے ۔سویہ مقصود اصلی نہیں کہ مخاطب ہمارے کہنے سے مسلمان ہی ہوجائے ۔گوایک درجہ میں یہ بھی مقصود ہے ، مگر خود اس کی بھی حقیقی غرض پر خیال کرنا چاہئے وہ کیا ہے؟ وہ رضائے حق ہے اور وہ ناکامی میں بھی حاصل ہے ۔ اس لئے ایسی ناکامی پر بھی راضی رہے ۔اس کو بھی کامیابی ہی سمجھئے۔ (الاتمام لنعمۃ الاسلام:ص ۱۲۹)تبلیغ کرنے میں زیادہ پیچھے نہیں پڑنا چاہئے اصل مقصود توتبلیغی جدوجہد سے رضاء حق ہے نہ کہ ثمرہ ۔ (کامیابی) اور اس کے ساتھ ہی