دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
جائے تووہ بھی حجت ہوتے ہیں ۔ اور سنئے! حق تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے صید(شکار)کے قصہ میں فرمایا ہے :وَاِذ قَالَت اُمَّۃُٗ مِّنہُم لِمَ تُعِظُونَ قَومَانِ اللّٰہُ مُہلِکُھُم اَومُعَذِّبُہُم عَذَاباً شَدِیداً ۔ یعنی بعض صلحاء نے دوسروں سے کہا تھا کہ ان نافرمانوں کو نصیحت کیوں کرتے ہو(جب مانتے ہی نہیں )انہوں نے نے جواب دیا :قَالُوْا مَعْذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمْ کہ خدا کے یہاں عذر قائم کرنے کے لئے تاکہ معذور سمجھ جائیں کہ ہم نے توان سے ترک معصیت (گناہ چھوڑ نے) کے لئے کہا تھا ،مگر انہوں نے نہیں مانا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نصیحت (تبلیغ)کرنے میں کسی کی تخصیص نہیں بلکہ امتی کے ذمہ بھی امر بالمعروف ضروری ہے اور حکم سب کو عام ہے، ہاں اس میں تفصیل ہے کہ کس کے ذمہ کیا ہے ، تبلیغ عام تو علماء کا منصب ہے اور تبلیغ خاص ہر جگہ اور ہر شخص پرہے ۔بہر حال حکم عام ہے اور امر بالمعروف خاص کسی فرد بشر سے ساقط نہیں ہوتا، اور امر بالمعروف عام یعنی وعظ کہنا یہ صرف علماء پر واجب ہے ۔ (آداب و تبلیغ :ص۱۱۰و۱۰۵)کن لوگوں پر تبلیغ واجب ہے ؟دعوت وتبلیغ کے وجوب وعدم وجوب کا معیار امر بالمعروف (کے وجوب)کا خاص مدار قدرت پر ہے یعنی جس کو جس کسی پر جتنی قدرت ہے اس کے ذمہ واجب ہے کہ اس کو امر بالمعروف کرے جن لوگوں پر قدرت ہے وہ یہ لوگ ہیں : بیوی ، بچے ، نوکر ، مرید ، شاگرد اور جن پر قدرت نہیں وہ یہ لوگ ہیں : دوست ، احباب ، بھائی، برادری، عزیز قریب، اور اجنبی لوگ۔ماں باپ کے ذمہ واجب ہے کہ اپنی اولاد کو نمازروزہ کی نصیحت کریں ۔ خاوند فرض ہے کہ اپنی بیوی کواحکام شرعیہ پر مجبور کرے ،آقا کے لئے لازم ہے کہ اپنے نوکر چاکر اور جوان کے ماتحت میں ہیں ان کو امر بالمعروف کریں ۔