دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
اب اگر علماء ہی خود انتخاب میں گڑبڑ کریں گے ، تو وہ ذمہ دار ہوں گے ، اگر وہ بددیانتی کریں گے تو خدا کے یہاں انہیں کی، گردن نپے گی ، مگر افسوس ایسا نہیں کیا جاتا ، خود عوام کو جو سمجھ میں آتا ہے وہی کرتے ہیں ۔(حقوق وفرائض:ص ۲۷۰)مبلغین کے تقرر اور فراہمی چندہ کی صورت ایک صورت چندہ کی یہ ہے کہ عام لوگ چندہ دیں ، اور خاص لوگ تبلیغ کا کام کریں ، مگر یہ صورت بہت بدنام ہوگئی ہے ، اور ہم نے خود اس کو بدنام کیا ہے کہ مخلوق کا روپیہ لے کر کام کچھ بھی نہ کیا ، اور روپیہ کھاپی کر سب برابر کردیا ،ورنہ یہ صورت بہت اچھی ہے اور آسان بھی۔ تمام مذہبی قومیں اسی طرح کام کررہی ہیں ۔مگر میں اس صورت کی رائے نہیں دیتا۔ میرے نزدیک چندہ کی بہتر صورت یہ ہے کہ ہر رئیس اپنی حیثیت کے موافق ایک مبلغ کا خرچ اپنے ذمہ رکھ لے، یا چند مالدار مل کر ایک مبلغ کا خرچ اپنے ذمہ رکھ لیں ، اور ہر مہینہ اس کو تنخواہ خود دیدیا کریں کسی انجمن وغیرہ میں چندہ دینے کی ضرورت نہیں ۔ مگر یہ ضروری ہے کہ مبلغ کا انتظام خود نہ کریں ، بلکہ علماء سے مشورہ کرکے کسی کو مقرر کریں لیکن اس کے ساتھ ملازم کا سا برتائو نہ کریں ، بلکہ اس کو اپنا مخدوم سمجھیں ۔ اگر یہ بھی نہ ہوسکے توجوانجمنیں تبلیغ کا کام کررہی ہیں ، ان ہی کی اعانت مال سے کرتے رہیں ، اگر اس کے کارکن خیانت کریں گے خدا کے یہاں بھگتیں گے ۔مگر جس کی خیانت کا علم ہوجائے اس کو پھر چندہ نہ دیں ،بلکہ اب اس کو دیں جس کی خیانت کا ابھی علم نہیں ۔ اور جو گ مالی اعانت نہ کرسکیں وہ دعا کرتے رہیں یہ بھی بڑی امداد ہے ، اور جس سے دعا بھی نہ ہوسکے وہ اللہ کے واسطے اس کا م میں روڑے تونہ اٹکائیں ۔ (محاسن الاسلام:ص ۲۹۷)