دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
فصل(۱) دعوت وتبلیغ میں مبلغ کے لئے بڑا مفسدہ (دعوت وتبلیغ) میں ایک اور مفسدہ عارض ہوجاتا ہے وہ یہ ہے کہ وعظ (تبلیغ) اور عمل کی ساتھ ہی اس میں کبرو عجب ہوجاتا ہے کہ میں بڑا صاحب کمال کہ اللہ میاں کے تمام حقوق ادا کرتا ہو ں حق تعالیٰ اس کے علاج کے لئے آگے تواضعکی تعلیم فرماتے ہیں : ’’وَقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘ یعنی اس نے یوں بھی کہا کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں ۔ اپنی زبان میں اس کا ترجمہ کیجئے ۔پھر آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ اس سے کیا مراد ہے۔ وہ ترجمہ یہ ہوگا کہ وہ شحص یہ بھی کہتا ہے کہ ’’میں تو تابعداری کرنے والا ہوں ‘‘ غلامی کرنے والا ہوں (کہو اسلام اور مسلمان کے یہی معنی ہیں ) تویہ تواضع کی تعلیم ہوئی ۔ توآیت کا خلاصہ یہ ہوا کہ دعوت الی اللہ میں عمل صالح سے جس میں دعویٰ بھی نہیں پیدا ہوتا اس سے اچھا کسی کا قول نہیں ۔ حقیقت میں بندہ کو دعویٰ کا حق ہی کیا ہے مگر ہماری حقیقت ناشناسی ہے کہ ہم اپنی عبدیت کی صفت بھول گئے ، آقاء نے کہا پانی پلائو توغلام نے یہ سمجھا کہ میں نے پانی پلایا تو بڑا احسان کیا اور یہ نہ سمجھا کہ میں تو غلا م ہی ہوں ۔اس صفت کے بھول جانے سے ہمیں ہر چیز پر فخر ہے ۔ نماز پر فخر ، وعظ (تبلیغ)پر فخر، اگر یہ نہ سمجھتا کہ میں تو غلام ہوں انہیں کے حکم سے اور انہیں کی توفیق سے کررہا ہوں ۔اگر وہ ہمیں توفیق نہ دیتے تو کہاں سے کچھ کرتے ۔ پس ’’اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ میں تو فرمابرداروں میں سے ہوں ۔اور حقیقت میں ہم کرتے ہی کیا ہیں یہ توان کی عنایت ہے کہ انہو ں نے سارا کام خود کراکر ہماری طرف منسوب کردیا ۔ (الدعوت الی اللہ:ص ۳۹)