دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
ایک ہم ہیں کہ نہی عن المنکر اس لئے نہیں کرتے کہ آپس میں ایسا انبساط نہیں رہے گا ، وہ شگفتگی نہیں باقی رہے گی ، اذیت کا اندیشہ توکیا ہوتا ، محض انشراح (دلی خوشی) کی کمی بھی نہیں چاہتے، اور اگر اس خوف کے ساتھ طمع(لالچ) بھی ہوتو پھر کچھ نہ پوچھئے ، منع کرنا تو درکنار بلکہ خوشامد کے مارے خود اس منکر کی الٹی تائید کرتے ہیں ، اگر امراء میں سے کوئی شطرنج کھیلتا ہو اور کوئی دوسرا ٹوکے… تویہ کہہ دیں گے کہ امام شافعیؒ نے شطرنج کو مباح کہا ہے حالانکہ ان کا بھی یہ قول نہیں رہا۔انہوں نے اس سے رجوع کرلیا ہے ۔ (الدعوت الی اللہ :ص۲۰)تبلیغ کی وجہ سے مخاطب کی ناگواری یا تعلقات کی خرابی کا خطرہ اور اس کا شرعی حل جن لوگوں پر قدرت نہیں ہے ان میں دوقسم کے لوگ ہیں ایک وہ کہ جن کو تبلیغ کرنے میں ضرر کا اندیشہ ہے جیسے دشمن اور مخالف ، اور بعض لوگ وہ ہیں جہاں ضرر کا اندیشہ نہیں ، صرف ناگواری کا خطرہ ہے ۔اور ان میں زیادہ تر ایسے لوگ ہیں ، چنانچہ دوست ، احباب ، بھائی اور عزیز (رشتہ دار)سے ضرر جسمانی یا مالی کا خطرہ نہیں ہوتا۔ بس ان کی تبلیغ سے اس واسطے پہلو تہی کی جاتی ہے کہ ان کو ہماری روک ٹوک ناگوار ہوگی۔ سو اس کا علاج یہ ہے کہ نصیحت کا عنوان ایسا اختیار کرو ، جس سے مخاطب کو ناگواری نہ ہو اور اس پر بھی کسی کو ناگواری ہوتو اس کی پرواہ نہ کرنی چاہئے ۔(التواصی بالصبر :ص ۲۲۳، ۲۱۱) غرض نصیحت میں اپنی طرف سے سحتی نہ کرے اس کے باوجود اگر کوئی برامانے تو مانا کرے اپنے فعل کا تو انتظام ہوسکتا ہے کہ برا ماننے کا طرز اختیار نہ کرے مگر دوسرے کے فعل کی پرواہ نہ کرے ۔ (الدعوت الی اللہ :ص ۹۱) ’’وَتَوَاصَوْ بِالصَّبْرِ‘‘ میں مبلغ کو تنبیہ ہے کہ جب تم دوسروں کو صبر کی نصیحت کرتے