دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
ہوجائیں گے تو کوئی نہ کوئی بات تراش لے گا کہ مجھ میں یہ یہ عذر موجود ہیں ۔یہ شرطیں مجھ میں نہیں پائی جاتیں ، ہم کیسے امر بالمعروف کریں ۔اسی لئے علماء کو چاہئے کہ عمل شروع کرنے سے پہلے کسی کو اعذار وشرائط بتلایا ہی نہ کریں ، جیسے کوئی شخص نماز پڑھنے کا ارادہ ہی نہ رکھتا ہو اور علماء سے پوچھتا ہے کہ نماز کے شرائط کیا ہیں اس کے اعذار وموانع کیا کیا ہیں ایسے شخص کو شرائط واعذار نہ بتلانا چاہئے ورنہ وہ تو ہر وقت اسی دھن ، میں رہے گا کہ کوئی بات ایسی ہو ، جس سے نماز پڑھنے سے چھٹی مل جائے البتہ جس کا پڑھنے کا ارادہ ہو ، وہ پوچھے تو اس کو بیشک بتلادیا جائے ، لیکن اگر یہ معلوم ہوجائے کہ محض چھٹکا را حاصل کرنے کا متلاشی ہے ، تومفتی کو چاہئے کہ ایسے شخص کو ہر گز جواب نہ دے، بلکہ میرے نزدیک ایسوں کو موانع واعذار کی اطلاع کرنا بھی جائز نہیں ہوگا ۔ (آداب والتبلیغ:ص ۷۸)معذور ہونے کا حکم لگانے میں ہرشخص کی رائے کا اعتبار نہیں ان تاویلات کا جو تمہاری تراشی ہوئی ہیں کچھ اعتبار نہیں ۔تمہارے فتوے سے امر بالمعروف ساقط نہیں ہوسکتا ۔ یہ نہیں کہ جو تمہارا دل چاہے وہی ہوجائے تمہاری رائے معتبر نہیں ۔بلکہ ضرورت اس کی ہے کہ کسی صاحب کمال سے پوچھنا چاہئے اگر وہ کہہ دے کہ تم معذور ہوتو ٹھیک ہے ورنہ تمہارے خیالات کا ، یا جاہلوں کے کہنے کا کچھ اعتبار نہیں ۔کسی صاحب بصیرت کی شہادت ہونی چاہئے ورنہ اس طرح تو ہر شخص کوئی نہ کوئی عذر تراش لے گا۔ غرض پہلے ہر شخص قلب کوٹٹول کر دیکھ لے کہ امر بالمعروف کا مقصد ہے یا نہیں ؟ یا محض اس سے خلاصی ہی چاہتا ہے، اگر قصد ہوتو بیشک وہ اس کے آداب واعذار وشرائط سیکھے۔ علماء سے پوچھ کر یا کتابوں سے دیکھ کر ۔ (آداب التبلیغ:ص ۸۲) (حاصل یہ) کہ تبلیغ کے شرائط وضوابط وآداب واعذار ،علماء سے دریافت کرو خود مفتی بن کر کیوں فتویٰ لگالیا کہ ہم تومعذور ہیں ۔(آداب التبلیغص۷۹)