دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
مقدمہ از حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب زید مجدہم (صدرمدرس دارالعلوم سبیل السلام حیدر آباد، قاضی شریعت آندھراپردیش) اسلامی تعلیمات میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔ دراصل تمام اعمال صالحہ اور زندگی کے تمام گوشوں کی صلاح وفلاح کیلئے اس کی حیثیت آب حیات کی ہے ۔جس سماج میں معروف کی طرف … دعوت دینے والی زبانیں نہ ہوں ۔ نیکی کوقوت پہنچانے والا قلم نہ ہو اور خیرات وحسنات کو سماج میں لانے والی مساعی اور کوششیں نہ ہوں ۔ جہاں برائیوں پر ٹوکا نہ جاتا ہو، اور جہاں ظلم وتعدّی کو روکنے والے ہاتھ نہ ہوں وہاں ممکن نہیں کہ بھلائی اور معروف کا شجرئہ طوبیٰ بار آور ہوسکے اور برائی اور منکر کے سیلاب کو تھاما جاسکے۔اسی لئے اسلام میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو خاص اہمیت دی گئی ہے ۔ قرآن مجید میں بیسوں مقامات پر اللہ تعالیٰ نے امت کو اس فریضہ کی طرف متوجہ فرمایا ہے اور امت محمدیہ کا تویہی فریضہ خاص مقرر کیا گیا ہے ۔ ’’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر‘‘ اس امت کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ ہوا کے رخ پر چلتی رہے اور کافرانہ تہذیب کی سیلاب میں بہہ نکلے ، اس امت کو اپنی صلاحیت اور دوسروں پر اثر ڈالنے کی کیفیت میں شرروآتش بننا ہے نہ کہ بے روح موم کی صورت ادلتی بدلتی رہے ۔قرآن مجید نے نیکی اور بدی کے لئے بڑی عجیب تعبیر اختیار کی ہے اور ان کو معروف ومنکر کہا ہے ۔’’ معروف‘‘ کے اصلی معنی مروّجہ اور مشہور بات کے ہیں ، اور ’’منکر‘‘ اصل میں ’’خلاف رواج‘‘ ان پہچانی چیزوں کے ظہور کو کہتے ہیں ۔پس منشاء خداوندی یہ ہے کہ نیکی کی اس قدرت دعوت دی جائے کہ وہ سماج کی ایک معروف ومروجہ حقیقت بن جائے ۔اور برائی سے اس قدر منع کیا جائے کہ وہ سماج کی ان