دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
صاحب بھی تو اصلاح کا وعدہ کئے ہوئے ہیں ۔حیرت کی بات ہے کہ مقتضیٰ موجود اور موانع سب مرتفع ہیں پھر بھی پیر صاحب مریدوں کے افعال پر خاموش ہیں ، کچھ روک ٹوک نہیں کرتے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو یہ شیوخ پیری مریدی کی حقیقت کو نہیں سمجھے یا عمداً جان بوجھ کر پہلو تہی کرتے ہیں ۔ (التواصی بالصبر:ص۲۲۵)علماء سے شکایت علماء نے آج کل یہ کام بالکل چھوڑ دیا جو انبیاء علیہم السلام کا کام تھا اس لئے آج کل واعظ زیادہ تر جہلاء نظر آتے ہیں ۔علماء واعظ بہت کم ہیں … آپ نے ایک شعبہ تولے لیا یعنی تعلیم درسیات اور دوسرا شعبہ تعلیم عوام کا چھوڑ دیا ،اگر علماء عوام کی تعلیم نہیں کریں گے تو کیا جہلاء کریں گے ؟اگر جہلاء یہ کام کریں گے تو وہی ہوگا ، جو حدیث میں آیا ہے کہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے ۔ اس لئے علماء کو تعلیم درسیات کی طرح وعظ وتبلیغ کا بھی کام کرنا چاہئے ۔ (وعظ علم والخشیہ :ص ۳۳) تعلیم دین کا اصل طریقہ جس کے واسطے حضرات انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوئے یہی وعظ ارشاد ہے جس کے ذریعہ دین کی تبلیغ فرماتے تھے باقی درس وتالیف وغیرہ تو اس کے تابع ہیں ۔ (حقوق العلم:ص ۹۳) میں ہمیشہ علما ء کو صوفیہ پر ترجیح دیتا ہوں ، کیوں کہ دین اور اس کے حدود کے محافظ علماء ہی ہیں ، اسی لئے میں علماء کو بجائے خلوت نشینی کے اس کو ترجیح دیتا ہوں کہ وہ درس تدریس وعظ تبلیغ میں اپنا وقت زیادہ صرف کریں ۔ (مجالس حکم الامت:ص ۱۱۸) (وعظ وتبلیغ) توہمارا فرض منصبی ہے اس کے لئے کسی کی خوشامد ،یا شفارش کا انتظار کرنا چہ معنی ، اگر کوئی درخواست نہ کرے جب بھی ہم کو یہ کام کرنا ہے اوردرخواست کرنے پر تو کسی طرح اس سے انکار نہ ہونا چاہئے ۔ (حسن العزیز:ص ۱۹۸،۲۶۱؍ج۴)