دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا کی مغفرت اور اس کی جنت کی طرف دوڑ و جس کو متقی لوگوں کے واسطے تیار کیا گیا ہے ۔تو جو شخص اس راستہ پر چلے اور اس مقررہ شدہ قانون پر عمل کرے گا ۔وہ مغفرت حاصل کرے گا جو شخص ایسا نہ کرے گا وہ محروم رہے گا ۔پس معلوم ہوا کہ مغفرت کا حاصل کرنا ہمارے اختیار میں ہے اور اگر ہم چاہیں تو اس کو حاصل کرسکتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ مغفرت ورحمت کا لینا بالکل ہمارے اختیار میں ہے ۔ورنہ اگر اس کو اختیار میں نہ مانا جائے تو آیت ’’سَارِعُوْا‘‘ کے کوئی معنی نہیں ہونگے کیونکہ تکلیف مالا یطاق (یعنی ایسی بات کا مکلف بنانا جو انسان کے بس میں نہ ہو )محال اور نص کے خلاف ہے ۔ اور یہاں اس کا حکم ہوا ہے تو ضرور وہ تحت الاختیار ہے ۔(یعنی ہمارے اختیار میں ہے)۔ (احکام العشر الاخیرہ ملحقہ فضائل صوم وصلوٰۃ:ص ۳۸۸،۳۸۶)بعض مبلغین کی زبردست غلطی بعض غیر محقق واعظین (ومبلغین )کہہ دیا کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے رزق کا وعدہ فرمایا ہے ۔جیسا کہ ارشاد ہے :’’وَمَا مِنْ دَابَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا‘‘ (اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر بسنے والی مخلوق کے رزق کی ذمہ داری اپنے اوپر لی ہے ) تو پھر لوگ پریشان کیوں ہوتے ہیں ؟ معلوم ہوتا ہے کہ تمہارا اس آیت پر ایمان نہیں ہے۔ خوب یاد رکھو! یہ الزام بھی غلط ہے کہ اس آیت پر مسلمانوں کا ایمان نہیں ۔نہیں ، ضرور سب کا ایمان ہے ۔اور ایمان ہونے کے باوجود پریشانی بھی اس کے ساتھ جمع ہوسکتی ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ وعدے دوقسم کے ہیں ۔ایک مبہم اور ایک معین ۔اللہ نے مبہم وعدہ فرمایا ہے کہ رزق ملے گا ۔ لیکن یہ نہیں فرمایا کہ کب ملے گا ؟اور کہاں سے ملے گا؟ اور کس طریقے سے ملے گا ؟اور کتنا ملے گا ۔توپریشانی ابہام کی وجہ سے ہے اور ساتھ ہی اس مبہم وعدہ پر پورا یقین ہے کہ وقت مقرر پر ضرور ملے گا ۔