دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
{باب۲۳ } علمی واصولی مباحث بدنامی اور احتمال فتنہ کی صورت میں اظہار حق کرناچاہئے یا نہیں ؟ ایک اہل علم نے سوال کیا کہ اگر کوئی فعل شرعاً فی نفسہٖ توقبیح (برا) نہ ہو بلکہ محمود اور پسندیدہ ہو۔لیکن عوام اس کو اپنے نزدیک برا اور مذموم سمجھتے ہو ں اور اندیشہ ہوکہ اگر اس فعل کو کیا جائے گا تو عوام بدگمان ہوں گے ۔ اور اس کو بدنام کریں گے ۔ توایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے؟ آیا مخلوق کی ملامت اور طعنہ کی پرواہ نہ کرے ۔اور اس کام کو کرے ۔یا ملامت اور بدنامی کے خوف سے اس کام سے پرہیز کرے؟۔ حضرت نے فرمایا… ایسی صورت میں نہ تو علی الاطلاق اس فعل کو منع کرسکتے ہیں ۔ اور نہ ہی علی الاطلاق اس کی اجازت دے سکتے ہیں بلکہ کتاب وسنت میں نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر تفصیل ہے ۔ چنانچہ اس وقت دوباتیں بیان کرتا ہوں کہ وہ دونوں واقعہ ایسے تھے کہ ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ کرنا چاہئے تھا ۔کیوں کہ عوام الناس کے نزدیک قابلِ ملامت تھے ۔ مگر ایک مقام پر حق تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے کو باقی رکھا ۔اور دوسرے واقعہ میں آپ کی رائے کے خلاف حکم دیا ۔ ایک توواقعہ ادخال حطیم فی البیت کا ہے (یعنی )قریش نے جب خرچ کی تنگی کی وجہ سے حطیم کو بیت اللہ سے خارج کر دیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بیت اللہ میں داخل کرنے کا ارادہ کیا ۔مگر اس خیال سے ملتوی کردیا ۔کہ اہل مکہ ابھی ابھی اسلام لائے ہیں