دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
دعوت وتبلیغ کے اصول وآداب سیکھنے کے طریقے جس کو نصیحت کرنا ہو اس کا طریقہ بزرگوں سے سیکھ لے ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ نصیحت نہ کرے بلکہ طریقے سیکھے ۔نصیحت سب کو کرو مگر بزرگوں سے سیکھ کر ۔ہر چیز حاصل کرنے سے حاصل ہوتی ہے ۔کوئی چیز یوں ہی نہیں آیا کرتی ۔اور حاصل کرنے کی صورت یہ ہے کہ ان کے پاس رہو ان سے پوچھتے رہو۔وہ بتلادیں گے ۔ (الاتمام لنعمۃ الاسلام:ص ۱۱۱؍ج۱)اصلاح وتبلیغ کے چند ضروری آداب قوم کی اصلاح کے کچھ آداب بھی ہیں ان کو معلوم کرلینا ضروری ہے سو ایک ادب تو اس کا یہ ہے کہ کسی شخص کی اصلاح عام مجمع میں نہ کی جائے ۔کیونکہ اس سے دوسرے کو شرمندگی ہوتی ہے ۔اور اس شرمندگی کا یہ اثر ہوتا ہے کہ نصیحت کرنے والے سے بغض ہوجاتا ہے ۔ بلکہ بعض اوقات اس غلط کا م کو چھوڑ نے کے بجائے اس میں اور زیادہ پختہ ہوجاتا ہے ۔کیوں کہ سمجھتا ہے کہ میری رسوائی تو ہوہی گئی ،پھر میں کیوں چھوڑوں ۔ اس کے لئے بہتر طریقہ یہ ہے کہ یا تو خود اس کو خلوت (تنہائی) میں لے جاکر اس سے کہہ دے ،یا اگر اس سے نہ کہہ سکے تو کسی ایسے شخص سے کہہ دے جو اس کی اصلاح کرسکے ، لیکن اس کے دشمن سے نہ کہے ، کیونکہ دشمن سے کہنے میں اصلاح تو ہونہیں سکتی، ہاں ذلت ضرور ہوگی۔ (۲) دوسرا ادب یہ ہے کہ نرمی سے کہے تحقیر اورطعن کے طور پر نہ کہے ۔ (۳) تیسرا ادب یہ ہے کہ اگر عام مجمع میں عام خطاب سے کہے تو ایسے پتے نہ دے (ایسے انداز سے بیان نہ کرے )کہ عام لوگوں میں اس کی رسوائی ہو۔ مجھے ایسا سابقہ بہت پڑتا ہے یعنی یہ فرمائش کی جاتی ہے کہ فلاں شخص سودلیتا ہے ذرا وعظ میں اس کی خبر لیجئے گا