دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
مخاطب کے حد پر قائم رہنے کی شرط امام غزالیؒ کے فتوے عجیب غریب ہوتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں ۔کہ مکہ معظمہ کے متعلق شوقیہ مضامین کا بیان کرنا ایسے شخص کے سامنے جائز نہیں جس کے لئے حج کرنا جائز نہیں ۔ مثلاً وہ شخص جو اہل وعیال کا خرچ بھی پورا نہ کرسکتا ہو اور سب کو چھوڑ کر چل دے ایسے شخص کے سامنے مکہ معظمہ کے شوقیہ مضامین بیان کرنا حرام ہے ،اب وحشت ہوئی کہ مکہ کے فضائل بیان کرنے کو حرام فرماتے ہیں ۔اس واسطے حرام فرماتے ہیں کہ وہ سن کر حج کے لئے چل پڑیگا اور گنہگار ہوگا، اوراس کے گناہ کا سبب یہ فضائل بیان کرنے والا ہوگا۔ (التبشیرملحقہ دعوت وتبلیغ:ص ۳۹۷)مخاطبین کے اور زیادہ گمراہ نہ ہوجانے کی شرط جہاں فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو وہاں کچھ مت کہو ۔ حضرت مولانا گنگوہیؒ نے وعظ کہنا چھوڑ دیا تھا ۔بعض لوگوں نے اعتراض کیا… ایک صاحب نے کہا کہ وعظ کہنا نہیں چھوڑ دیا بلکہ تم کو کافر ہونے سے بچالیا ۔کیوں کہ وہ وعظ کہتے تو تم اسے رد کرتے ، اور وعظ میں شرعی احکام ہوتے ہیں توتم شریعت کا رد کرتے ۔ اور ردّ شریعت کفر ہے ۔ واقعی موقع ومصلحت کا سمجھنا حکیم کا کام ہے ۔اگر اس موقع پر حضرت وعظ فرماتے تو بجائے اصلاح کے ان کا ایمان بھی جاتا رہتا ۔ خوب سمجھ لو! اگر ایسے موقع پر منع کیا تو دوحال سے خالی نہیں یا تو اور زیادہ ضد میں آکر غلط کام کریں گے یا استخفاف کریں گے (حقیر سمجھیں گے ) اگر استخفاف کریں گے تو کافر ہوجائیں گے ۔ اور ان کے کفر کا سبب یہ وعظ ہوگا ۔ایسے امر کے متعلق حدیث میں آیا ہے