دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
اجازت کے وہاں سے نہ اٹھو۔ ان آیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو حقوق بیان کئے گئے ہیں ۔ حضور کے بعد آپ کے خلفاء اور وارثانِ علم کے بھی وہی حقوق ہیں ۔کیوں کہ تخصیص کی کوئی دلیل موجود نہیں ۔بلکہ جس حدیث میں تبجیل(تعظیم) علماء کی تاکید ہے وہ ان احکام کے عموم پر دال ہے ۔اسی واسطے سلف نے وارثانِ رسول کا وہی ادب کیا ہے ۔جو ان آیات میں حضور کے لئے مذکور ہے ۔ (التبلیغ کوثر العلوم:ص ۱۴۱؍ج۱۲) علماء نے تصریح کی ہے کہ جو حضرات دین کی بزرگی رکھتے ہیں ان کے ساتھ بھی ادب برتنا چاہئے ۔گوسوء ادب (بے ادبی) کا وبال اس درجہ کا نہ ہو ۔لیکن تاذی بلا ضرورت (تکلیف دینا) حرام ہے ۔ (بیان القرآن:ص ۴۱؍ج۱۱، حجرات)علماء پر بے جا الزام دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے سب کا الزام علماء پر ہے ۔سلطنت اسلام پر کوئی بلا آئے توعلماء کی بدولت۔ ہندوستان کے مسلمانوں پر کوئی وبال آئے توعلماء کی بدولت، مسلمانوں میں افلاس آئے تو علماء کی بدولت ، کہ یہ سود کو حلال نہیں کرتے ،نومسلم مرتد ہوں تو اس کا الزام بھی مولویوں پر کہ انہوں نے تبلیغ نہیں کی ۔ان نومسلموں کی خبر نہیں لی… سارا الزام مولویوں ہی کودیا جاتا ہے کہ سلطنت اسلام کا زوال بھی انہیں کی غفلت کی وجہ سے ہوا ۔ اور فتنہ ارتداد بھی انہیں کی غفلت سے ہوا آگے یہ بھی کہہ دینا کہ کسی کو دست آئیں تو اس میں بھی علماء کا قصور نکال دینا ۔اور کسی کودق (ٹی بی) ہوتو اس میں بھی علماء کی خطا ء کہہ دینا ۔کسی جگہ طاعون اور ہیضہ ہو، تو اس میں بھی علماء کی خطاء بتلادینا، کیا یہی انصاف ہے؟ مجھے اس سے انکار نہیں کہ علماء نے بھی اس معاملہ میں کوتاہی کی ہے مگر یہ میں تسلیم نہیں کرتا کہ سارا الزام انہی کو دیا جائے ۔اور سارا قصور انہی کا بتلایا جائے آخر آپ کے ذمہ کچھ