دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
فصل(۳) ترک لایعنی اور فضولیات سے احتراز رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ اَلْمَرْئِ تَرْکُہٗ مَالَا یَعْنِیْہِ ‘‘(یعنی لایعنی امور کا ترک کردینا آدمی کے حسن اخلاق میں سے ہے) اور لایعنی عبث ولغو کو کہتے ہیں ، یعنی جو چیز نہ نافع ہو نہ مضر (نقصان دہ ) وہ لایعنی ہے ۔ اسی کے ترک کو حضور نے حسن اسلام فرمایا ہے ۔اور یہ نہیں فرمایا ’’مِنْ حُسْنِ اِسْلَامٍِ الْمَرْئِ تُرْکہُ مَایَضُرُّہٗ‘‘ کہ مضر (نقصان دہ چیزوں ) کا ترک کردینا حسن اسلام سے ہے ۔مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بجائے ’’مَایَضُرُّہٗ کے مَالَایَعْنِیْ‘‘ فرماکر یہ بتلادیا کہ جو کام عبث، ولغو وبیکار ہے وہ واقع میں مضر ہے ۔ توگویا ترک نافع (نفع کو چھوڑنے) کی دوصورتیں ہوئیں ایک ارتکاب مضر، اور ایک خلوعن الشغل المفید(یعنی ایک تونقصان والے کام کو کرنا ، دوسرے مفید کام سے خالی ہونا یعنی ایسا کام کرنا جس میں کوئی فائدہ نہ ہو)۔ اور یہ دوسری قسم اپنے انجام کے اعتبار سے پہلی ہی قسم میں داخل ہوجاتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ صرف مضر چیز کا ترک کردینا کافی نہیں ہے بلکہ نافع (نفع والے کام میں مشغول ہونا بھی ضروری ہے ۔کیونکہ مشغلہ ہی ایک ایسی چیز ہے جو دوسرے مشغلہ سے روک سکتا ہے۔ ورنہ بغیر مشغلہ کے مضر (نقصان) سے رکارہنا مشکل ہوگاکیوں کہ چند روز تک تو نفس صبر کرتا ہے ۔اس کے بعد پھر کسی نہ کسی مشغلہ کی طرف متوجہ کردیتا ہے اور وہ اکثر مضر ہی ہوتا ہے ۔چنانچہ ایک بزرگ کا مقولہ ہے کہ تم نفس کو مشغول کرلو ، قبل اس کے کہ وہ تم کو مشغول کرلے ،یعنی اگر تم نے نفس کو کسی کام میں نہ لگایا تو وہ خود تمہارے لئے کوئی دھندا نکال لے گا