دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
ہیں کہ جانا لائق تجھے اس قدر سمجھایا ، اتنی کوشش کی ، مگر تونے سمجھا ہی نہیں ، میرے اوقات کو ضائع کیا ، ساری محنت ہی رائیگاں گئی ۔ اوراگر اس پر قدرت ہوتی ہے ، تو کبھی اس کو سزاد ے دیتے ہیں اور وہ بھی اعتدال سے زیادہ۔ اور بعض وقت دل تنگ ہوکر بیٹھ جاتے ہیں کہ جابھاڑ میں پڑ۔ اور کام چھوڑ بیٹھتے ہیں ،یہ اثر ہواثمرات عاجلہ پر نظر کرنے سے۔ بظاہر تو جب مبلغ کو رنجیدہ اور غمگین دیکھا جاتا ہے اس وقت اس کا بڑا ہی کمال سمجھا جاتا ہے اور وہ اعلیٰ درجہ کا مبلغ شمار کیا جاتا ہے کہ اس سے زیادہ اور کیا کمال ہوگا کہ ہمہ تن اس کی طرف متوجہ ہے ۔اور دوسروں سے بھی کہہ رہے ہیں کہ بھائی اس کے لئے دعاء کرو کہ اس کی اصلاح ہوجائے مثلااگر اپنا بیٹا نماز نہیں پڑھتا تواُس کو سمجھاتے ہیں ،کڑہتے ہیں ،دل سے دعا کرتے ہیں ،اوروں سے بھی دعا کرواتے ہیں ، کسی سے کہتے ہیں کہ ایک تعویذ ہی دے دو ۔یہ سب افعال گو محمود ہیں ،مگر جب غلو ہوجاتا ہے تو اس کا اثر برا ہوتا ہے ۔کیونکہ اس کا انجام مایوسی، اور مایوسی کا انجام تعطل (بیکاری اور کام چھوڑبیٹھنا) ہوتا ہے۔ تو جس کو آپ نے تبلیغ کافرد کامل سمجھا تھا ۔اب وہ تعطّل اور ترک تبلیغ کا ذریعہ ہوگیا اور تبلیغ سے ہاتھ دھوبیٹھے ۔سوخوب یاد رکھو شفقت کا جو درجہ ایسا ہوگا وہ کامل نہیں بلکہ ناقص ہے۔ اس ادب کا حاصل یہ ہوا کہ ثمرات (اور کامیابی) کے مرتب نہ ہونے سے غمگین نہ ہونا چاہئے ۔البتہ ایک طبعی غم ہوتا ہے اس کا تو مضائقہ نہیں بلکہ اس میں ثواب ہوگا ۔اور یہ طریقہ کہ اس میں غلو اور مبالغہ ہوجائے ۔کہ ثمرہ مرتب نہ ہونے سے ہمت ہی توڑ دے اور روتے روتے آنکھیں پھوڑ دے یہ برا ہے ۔نصوص کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ اتنے رنج وغم کی اجازت بھی نہیں ۔(آداب التبلیغ:ص ۱۱۷)حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جی چاہتا تھا کہ کفار کو وہی معجزہ دکھلا یا جائے جس کو وہ چاہتے