دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
چاہئے جب اس نے اس کو مان لیا تو اب یہ کہو کہ وہ اپنی ذات وصفات میں یکتا ہے ۔ اس کا علم ایسا ہے ۔قدرت ایسی ہونا چاہئے ۔ اس کو شرکت ومساوات اور تمام عیوب سے پاک ہونا چاہئے ۔ ان باتوں کو سب مانیں گے ۔ اس کے بعد اس سے کہو کہ پھر دیکھو کہ صانع عالم (دنیا کو پیدا کرنے والے) کی توحید اور تعظیم اس کی شان کے لائق کس مذہب میں ہے ؟ یقینا اسلام کے سوا کسی مذہب میں یہ بات نہیں ۔اب اس سے کہو کہ تم کو اسلام لانا چاہئے ۔کیوں کہ اسلام ہی میں ان باتوں کی بخوبی تعلیم دی گئی ہے اس طرح مخاطب کو ذرا بھی وحشت نہ ہوگی ۔اور اگر دوسرے شخص کو شرعی اصطلاحوں میں نصیحت کروگے (مثلاً کافر سے یہ کہا جائے کہ اسلام لے آئو)تو اس کو وحشت ہوگی ۔(التواصی بالحق:ص ۱۶۸)موجودہ حالات میں مسلمانوں کو تبلیغ کی جائے یا غیر مسلموں کوکی جائے؟ ایک صاحب نے عرض کیا کہ یہ تو مسلم ہے کہ دینیات کی تبلیغ ضروری ہے لیکن یہ دریافت طلب ہے کہ اگر تبلیغ کی جائے تو غیر مسلموں کو (نہ کہ مسلمانوں کو ) کیوں کہ یہ خیال ہوتا ہے کہ مسلمان تو جیسے بھی ہیں وہ تو کبھی نہ کبھی جنت میں پہونچ ہی جائیں گے ۔باقی رہے کفار ، سووہ تو ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے ۔کبھی ان کو دوزخ سے خلاصی نہ ہوگی لہٰذا کفار کے لئے اس کی زیادہ ضرورت ہے کہ ان کو حق کی (اسلام کی) تبلیغ کی جائے ۔ حضرت نے ارشاد فرمایا کہ اصل میں تو مسلموں اور غیر مسلموں دونوں ہی کو تبلیغ کی ضرورت ہے اور جیسے اصول (عقائد توحید رسالت) ضروری ہیں ۔اسی طرح فروع (احکام ومسائل) پر بھی عمل ضروری ہے تو ضرورت دونوں میں مشترک ہے گودونوں کی ضرورت کے