دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
مخاطب کو سمجھانے اور نصیحت کرنے کا طریقہ سمجھانے کا قاعدہ یہی ہے کہ مصلح کو اپنے اوپر مشقت لینی چاہئے اور مخاطب کو آسان کرکے مطلب سمجھانا چاہئے ۔یہی طریقہ قرآن پاک میں اختیار کیا گیا ہے کہ مخاطب کو ایسے عنوان سے نصیحت کی جاتی ہیجس سے وہ متوحش نہ ہو۔چنانچہ ایک مقام پر حق تعالیٰ نے اسی طرز کی تعلیم فرمائی ہے ۔چنانچہ ارشاد ہے : ’’قُلْ یَااَہْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَائٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَنْ لَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہُ وَلَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ‘‘۔ ترجمہ: کہہ دیجئے! کہ اے اہل کتاب !آئو اور ایک بات سنو ۔جو ہمارے اور تمہارے نزدیک برابر ہے وہ یہ کہ اللہ کے سواء کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ کریں اور آپس میں ایک دوسرے کو اللہ کے سوا رب نہ بنائیں ۔ یہ عنوان ایسا ہے جس سے وحشت نہیں ہوسکتی ۔ کیوں کہ کفار بھی شرک کو برا سمجھتے تھے۔ گواپنے شرک کو برا نہ سمجھتے تھے اس کے بعدارشاد ہے : ’’فَاِنْ تَوَلَّوْ فَقُوْلُوا اشْہَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ‘‘ یعنی اگر وہ اس بات کو مان لیں تب تو گویا اسلام کو مان لیا ۔کیونکہ اسلام کی تعلیم یہی ہے ۔اور اگر وہ اس سے اعراض کریں تو صاف کہہ دو کہ تم گواہ رہو، ہم تو مسلمان ہیں اس میں تالیف قلب کی رعایت نہیں ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہم کو یہ بتلایا ہے کہ ابتداء میں تو تالیف قلب کرو اور انتہا میں صفائی سے کام لو ۔چنانچہ اس آیت میں ابتداء تو ایسے عنوان سے ہے جس میں تالیف قلب ہے اور انتہا میں صفائی کی تعلیم ہے ۔ (التواصی بالحق:ص ۱۷۰)