دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
لئے موجب استخفاف (حقارت) سمجھا، حالانکہ حضرات انبیاء کا یہ اصل کام تھا، ان حضرات نے سوائے وعظ وپند اور تبلیغ واشاعت کے کبھی مدرسہ نہیں بنایا ۔ (الدعوت الی اللہ :ص۲۲) واقعی مسلمانوں کو اس بات نے بے حد تباہ کیا کہ وعظ(وتبلیغ) کہنے والے زیادہ تر جاہل ہیں اور علماء وعظ نہیں کہتے ، اگر علماء وعظ کہتے ہوتے تو مسلمانوں کی حالت تباہ وبرباد نہ ہوتی ۔ (حقوق وفرائض :ص۱۱۱)جملہ اہل علم کی ذمہ داری عموماً اہل علم کی ساری جماعتوں سے یہ بھی عرض ہے کہ ان معین اوقات کے علاوہ دوسرے عام اوقات میں اپنی اپنی جگہ خاص وعام تبلیغ سے غافل نہ رہیں ۔(تجدید تعلیم وتبلیغ: ص۱۹۳)دعوت وتبلیغ صرف علماء کا کام نہیں بغیر دعوت کے دیندار نہیں بن سکتے آج کل لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یہ کام تو مولویوں کے ذمہ ہے، سو اگر یہ کام تنہا مولویوں کے ذمہ ہے تو پھر نماز روزہ کو بھی پیروں کے ذمہ سمجھو، اور تم آزاد زندگی گذارو، بس شکایت اس کی ہے کہ جو لوگ دیندار اور نمازی ہیں جس طرح وہ نماز کو ضروری سمجھتے ہیں کیا اسی درجہ میں تبلیغ کو بھی ضروری سمجھتے ہیں ؟ ہر گز نہیں اگر کبھی نماز قضا ہوجائے تو اس پر توندامت ہوتی ہے مگر ترک تبلیغ پر ذرا بھی ندامت نہیں ہوتی۔اور اگر کبھی اتفاقاً کسی کو نصیحت کردیتے ہیں توبجائے اس کے کہ اس پر شکرکریں کہ آج مدت کے بعدفرض کی ادائیگی کی ہم کو توفیق ہوئی الٹا اس پر ناز کرتے ہیں کہ ہم نے بڑا کام کیا، جیسے شب قدر میں جاگنے پر فخر ہوتا ہے ۔مگر ظہر کی نماز پڑھ کر کوئی فخر نہیں کرتا ،کھانا کھا کر کوئی ناز نہیں کرتا پھر نصیحت کردینے پر فخر کیوں کرتے ہیں ۔راز وہی ہے کہ ظہر کی نماز تو اپنے ذمہ فرض سمجھتے ہیں اور تبلیغ کو فرص نہیں سمجھتے اس