دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
ہم لوگوں کو اعمال کی حیثیت سے بالکل غفلت ہے ۔ہم ان کو بالکل ضروری نہیں سمجھتے۔ اور ظاہر ہے کہ جب لوگ اعمال کی ضرورت واہمیت ہی سے غافل ہیں تو ان کی اصلاح وتبلیغ سے غفلت بھی ظاہر ہے ۔چنانچہ ہماری حالت یہ ہے کہ ہفتے کے ہفتے گذر جاتے ہیں کہ ہم :’’اِفعَل کَذَاوَََََََََََََََََََََََََْلاً تَفْعَلُ کَذَا‘‘ (یعنی ایسا کرو ایسا نہ کرو ) کبھی نہیں کہتے ، اور اصلاح ، اعمال اور احکام عملیہ کی تبلیغ میں یہ کوتاہی اس درجہ بڑھ گئی ہے کہ جن پر قدرت نہیں ہے ان کی تبلیغ کا تو کیا اہتمام ہوتا جس پر قدرت ہے وہاں بھی اس کا استعمال نہیں ہوتا۔ جن پر قدرت ہے وہ یہ لوگ ہیں بیوی ، بچے نوکر، مرید، شاگرد، اور جن پر قدرت نہیں وہ یہ لوگ ہیں دوست ، احباب، بھائی، برادری ، عزیز قریب رشتہ دار، اور اجنبی لوگ۔ اور جب وہ لوگ بھی جن کو بظاہر قدرت سے خارج سمجھا جاتا ہے زیادہ تر محل تبلیغ ہیں اور ان کی ترک تبلیغ میں ہم معذور نہیں ۔توبتلائیے جو لوگ ضابطہ سے ہمارے ماتحت ہیں اور ظاہر میں ان کی تبلیغ ہماری قدرت میں داخل ہے وہاں ترک تبلیغ سے ہم کیوں کر معتوب ومعذور (عند اللہ گنہگار نہ ہوں گے؟) مگر حیرت ہے کہ ہم قدرت کے موقع میں بھی تبلیغ ونصیحت سے غفلت کرجاتے ہیں ۔ (التواصی بالصبر:ص۲۲۴)دینداروں سے شکایت شکایت اسی کی ہے کہ جو لوگ دیندار اور نمازی ہیں جس طرح وہ نماز کو ضروری سمجھتے ہیں کیا اسی درجہ میں تبلیغ کو بھی ضروری سمجھتے ہیں ؟ اگر کبھی نماز قضا ہوجائے تو اس پر تو ندامت ہوتی ہے مگر ترک تبلیغ پر ذرا بھی ندامت نہیں ہوتی، انصاف سے کہئے کیا کبھی بیوی کو نصیحت نہ کرنے پر بھی آپ کو ندامت ہوئی ہے؟ یا کسی دوست کی وضع خلاف شریعت تھی کیا اس کو نصیحت نہ کرنے پر بھی ندامت ہوئی ہے ؟ کبھی نہیں ۔ (التواصی بالحق:ص ۱۶۰) اس بے توجہی کی وجہ یہ ہے کہ اپنے اغراض کی وجہ سے بے حد تساہل (سستی)