دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
ہوگا، مگر یہاں تو یہ فکر ہی نہیں بلکہ اپنی خیر منائی جاتی ہے اور نصیحت کریں گے بھی تو برے طریقے سے ، جیسے دوسروں کے سرپر کلہاڑی ماردی جائے اس کی بھی پرواہ نہیں کہ کس طرح کہنے سے فائدہ ہوگا ۔ میں کہتا ہوں ، جس کو نصیحت کرنا ہو اس کا طریقہ بزرگوں سے سیکھ لے ۔میں یہ نہیں کہتا کہ نصیحت نہ کرے بلکہ طریقہ سیکھے، نصیحت سب کو کرو، مگر بزرگوں سے سیکھ کر، ہر چیز حاصل کرنے سے حاصل ہوتی ہے ، کوئی چیز یوں ہی نہیں آیا کرتی ۔اور حاصل کرنے کی صورت یہ ہے کہ ان کے پاس رہو ان سے پوچھتے رہو۔وہ بتلائیں گے۔ یادرکھو! نصیحت میں سختی نہ کرو، لطافت اور نرمی سے کہو ، اور اگر ممکن ہوتو دوسروں پر رکھ کر سنا دو۔(الاتمام :ص ۱۱۱،۱۱۲)خواہ مخواہ کے فضول عذر کی وجہ سے ترک تبلیغ اب اگر کوئی یہ کہے کہ صاحب اگر کسی کو عذر ہو مثلاً یہ کہ ہم کسی کو نصیحت کریں اور وہ اس سے برا مانتا ہے ، ناک ، منہ چڑھا تا ہے اور ایذا (تکلیف) پہونچانے کے درپے ہوجاتا ہے توکیا پھر بھی امر بالمعروف کریں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے آپ امر بالمعروف کریں جب کام شروع کرکے کہیں گاڑی اٹکے گی اس وقت استفتاء کرلینا، ابھی سے اعذار کا حکم دریافت کرنے کا آپ کو حق نہیں ، بلکہ اس وقت اعذار کا حکم دریافت کرنا گویا جان بچانے کی تدبیریں ڈھونڈنا ہے ۔ سب مسلمان جانتے ہیں کہ شریعت نے طاقت سے زیادہ کوئی حکم نہیں دیا مگرپھر بھی اس قسم کے اعذار کو دوسرے کاموں کے بارے میں کوئی پیش نہیں کرتا، مثلاً وضو، بعض دفعہ عذر سے ساقط ہوجاتا ہے ، اور نماز میں قیام عذر سے ساقط ہوجاتا ہے مگر جس وقت نماز کے لئے کسی کو کہا جاتا ہے وہ کبھی نہیں یہ کہتا ہے کہ پہلے مجھے یہ توبتلادو کہ وضو اور قیام کن کن عذروں سے ساقط ہوجاتا ہے ۔کیوں کہ وہاں آپ نماز پڑھنے کو ضروری سمجھتے ہیں ، اور عذر کو عارضی ۔