دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
تھے۔ ایک مجادلہ حسنہ کا ، اورایک مجادلہ سیئہ (یعنی برے طریقہ کا) اس لئے (آیت میں ) احسن کی قید لگادی ۔اور مجادلہ سیئہ سے ممانعت کردی رہا یہ کہ مجادلۃ میں تو احسن کی قید لگائی اور حکمت کے ساتھ حسنہ کی قید کیوں نہیں لگائی؟اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں غیر حسنہ کا احتمال ہی نہیں کیوں کہ اپنے دعویٰ کی دلیل بیان کرنے میں کسی کوناگواری نہیں ہوتی ۔ اور دوسرے کے دعویٰ کو رد کرنے میں اسے کبھی انقباض (اور تنفر) ہوتا ہے اس لئے وہاں قید نہیں لگائی۔ اور یہاں قید لگائی، کہ اگر (کسی کا ) رد ہوتو احسن طریقے سے ہو جس سے کسی کو رنج اور کلفت نہ ہو۔ سبحان اللہ! بندوں پر کس قدرت شفقت ہے کہ مخالف کی اتنی رعایت کی کہ اس کا رد اگر ہوتو ایسے طریقہ سے ہو کہ اس پر حقیقت تومنکشف ہوجائے مگر برا بھلا کسی کو نہ کہا جائے۔ اور رد کرنے میں جو میں نے قید لگادی ہے کہ حقیقت ظاہر ہوجائے یہ اس لئے ہے کہ بعض دفعہ جواب ایسا گول مول ہوتا ہے کہ خصم (فریق مخالف) پر حقیقت ظاہر نہیں ہوتی ۔ اور یہ حسن مجادلہ کے خلاف ہے ،اس لئے چاہئے کہ کہے تو صاف صاف مگر احسن طریقہ سے۔ چنانچہ ’’فَاصْدَعْ بِمَا تُوْمَرُ‘‘ کا یہی مطلب ہے کہ کھول کے صاف صاف بیان کردو، ورنہ جہالت سے نجات نہیں ہوتی ۔ جو شخص گول مول بات کرتا ہے اس سے ہر شخص راضی تورہتا ہے ۔مگر اس کا اثر برا ہوتا ہے کہ مخاطب جہل مرکب میں مبتلا رہتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ بات صاف ہو مگر الفاظ سخت نہ ہوں ۔’’قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُ الَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنْ ‘‘ کا یہی مطلب ہے کہ سخت الفاظ سے بچو۔ (وعظآداب التبلیغ ملحقہ دعوت وتبلیغ:ص۱۱۶)دعوت وتبلیغ کے سلسلہ میں ترغیب وترہیب کی ضرورت واہمیت ترغیب وتر ہیب سے مخاطب کے دل میں احکام کے قبول کرنے کی صلاحیت پیدا