دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
اور میں تو محمد ہوں اگرچہ مذمم سے ان کی مراد اور نیت تو ان کم بختوں کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی گستاخی کی تھی ۔مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے غیظ وغضب کو ہلکا کرنے کے لئے فرماتے ہیں کہ میاں یوں دل کو سمجھا لیا کروکہ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ نام مبارک ہے ہی نہیں ۔ بہر حال وہ حق تعالیٰ کی تعلیم تھی اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے۔ (اس سے معلوم ہوا کہ ) یہ امور توایسے واجب الرعایت ہیں کہ اگر کسی جاہل سے بھی سابقہ پڑجائے تو اس کے جواب میں بھی جہالت کی ممانعت ہے چنانچہ ارشاد ہے : ’’وَاِذَاخَاطَبَہُمْ الْجَاہِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًا‘‘۔ ترجمہ: اور خطاب کرتے ہیں ان سے جاہل تو وہ کہہ دیتے ہیں سلام… یعنی جاہلوں کی جہالت کا بھی جواب جہالت سے نہیں دیتے … تویہاں جہالت کی بات کا جواب بھی ’’قَالُوْا سَلَامَا‘‘ہے۔یعنی جہالت کے طریقہ پر جواب نہیں دیتے ۔(الدعوت الی اللہ:ص ۱۶،۱۷،۱۸)دعوت وتبلیغ کاضروری دستور العمل اور نہایت اہم قاعدہ دعوت الی اللہ میں بعض دفعہ کفار یا فجار تکلیف پہنچاتے ہیں اس کے متعلق ایک دستور العمل تعلیم فرماتے ہیں اور اس سے پہلے تمہید کے طور پر ایک قاعدہ کلیہ بیان فرماتے ہیں : ’’وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ‘‘۔ یعنی یہ قاعدہ یاد رکھو کہ بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوتی ۔اس سے یہ بھی سمجھ لو کہ اچھا برتائو اور برا بَرتائو برابر نہیں ہوتا،پس تم کو دعوت میں عمدہ برتائو اختیار کرنا چاہئے وہ کیا ہے؟ ’’اِدْفَعْ بِاللَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ‘‘ یعنی مخالفت کے برے برتائو کو اپنے اچھے برتائو سے دفع کرو،بدی کا علاج بھلائی سے کرو ،اگر وہ سختی کریں تو تم نرمی کرو ،ان کے ساتھ خشونت (سخت مزاجی) سے پیش نہ آئو۔ آگے اس کا ایک دنیوی فائدہ بتلاتے ہیں :’’فَاِذَالَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ‘‘ یعنی پھر دیکھ لینا کہ تم میں اور جس شخص میں عداوت تھی وہ ایسا ہوجائے گا جیسا کہ