دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
دیکھا جائے کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں آیا وہ دین کے لئے خلوص اور نیک نیتی سے کررہے ہیں یا ایسا نہیں ؟ اگر خلوص سے کررہے ہیں تووہ مقبول ہے ورنہ کچھ بھی نہیں ۔ (ضرورت تبلیغ:ص ۲۹۶)نفس کا دھوکہ اور اخلاص پیدا کرنے کا طریقہ دوقسم کے لوگ ہیں ایک وہ جو دین کو دنیا کے واسطے کرتے ہیں ، جس کا مذموم ہونا ظاہر ہے ۔اور ایک وہ لوگ ہیں جو دین کا کام اس لئے چھوڑ بیٹھے ہیں کہ آخرت کی نیت تو ہے ہی نہیں پھر بلا نیت کے کرکے کیا کریں گے ۔چنانچہ یہی سمجھ کر بہت سے لوگوں نے نماز چھوڑ دی کہ جیسی مطلوب ہے ویسی تو ہوہی نہیں سکتی توپڑھنے سے کیا فائدہ ۔بعض لوگوں نے روزہ چھوڑ دیا کہ جیسا ہونا چاہئے ویسا تو ہوہی نہیں سکتا ۔ پھر رکھنے سے کیا فائدہ۔ صاحبو! یہ بڑی غلطی ہے حقیقی روزہ نماز حاصل کرنے کی تدبیر بھی یہی ہے کہ پہلے روزہ کی صورت کو اختیار کرو، گو مخلص نہ ہو۔مگر شرط یہ ہے کہ اس کی ضد(یعنی غلطی اور فاسد نیت) بھی نہ ہو۔خلو کا درجہ ہو ۔(یعنی خالی الذہن ہوں )اسی سے خلوص ہوجاتا ہے ۔اور کرتے کرتے نیت بھی درست ہوجاتی ہے ۔ اور یہ نفس کا حیلہ وبہانہ ہے کہ جب کامل عمل نہیں ہوتا توناقص کیوں کریں ۔ سبحان اللہ! کیا دنیا کے جتنے کام کامل ہوتے ہیں وہ پہلے ہی دن سے کام ہو جاتے ہیں ؟ ہر گز نہیں بلکہ ایک مدت کے بعد عمدہ کام کرنا آتا ہے ۔یہی حال آخرت کے اعمال میں بھی ہے کہ کرتے کرتے ہی کمال حاصل ہوجائے گا ۔ پس ناقص عمل بھی بیکار نہیں ۔بلکہ یہ ذریعہ ہے کامل کا ۔ پس اعمال صالحہ میں خلوص کا قصد تو کرو لیکن اگر آج حاصل نہ ہوتو عمل نہ چھوڑ بیٹھو، بلکہ کئے جائو ۔اور قصد بھی برابر رکھو انشاء اللہ ایک دن ضرور حاصل ہوجائے گا ۔ (ضرورت تبلیغ:ص ۲۹۷)