دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
لوگ زنا اور شراب خوری میں مبتلا ہیں اور اس کی برائی سے بھی واقف ہیں مگرعقائد میں یہ بات نہیں ہے کہ لذت کی وجہ سے کوئی جان بوجھ کر کوئی غلط عقیدہ کا معتقد ہوکیوں کہ وہ پھیکی (بے مزہ) چیز ہے اس میں نفسانی لذت کچھ نہیں ۔اسی لئے عقائد میں ہر شخص اُسی بات کا معتقد ہوتا ہے جو اس کے نزدیک حق ہوتا ہے ۔پس اب عقائد حقہ شرعیہ (درست عقائد) کی جب لوگوں کو تعلیم کی جائے گی ۔تو گویا مخاطب فاسد العقائد (جس کا عقیدہ غلط ہو) اس کے خیال میں طاعات سے چھڑا یا جاتا ہے اسی لئے عقائد کی تبلیغ لوگوں کو ناگوار ہوتی ہے۔ نیز عقائد کا فساد محسوس نہیں ہوتا ۔ صرف عقلی فساد ہوتا ہے اور اعمال کا فساد حسّی ہوتا ہے (یعنی) ان کے مفاسد کا مشاہدہ کرایا جاسکتا ہے اسی لئے مخاطب کو اپنے عقائد کا فساد جلدی معلوم نہیں ہوتا ۔ بلکہ جو ان کو غلط کہے اس کی بات ناگوارہوتی ہے۔ اسی وجہ سے عقائد کی تبلیغ عام طور پر لوگوں کو ناگوار ہوتی ہے اور یہی ناگواری سبب ہے اس بات کا کہ ہم لوگ کفار کو اسلام کی تبلیغ نہیں کرتے ۔بلکہ آج کل عموماً ہر قسم کی تبلیغ اس لئے متروک ہے کہ مخاطب کو اس سے ناگواری ہوتی ہے اور عقائد کی تبلیغ میں یہ ناگواری زیادہ ہوتی ہے لوگ سمجھتے ہیں کہ مخلوق کی ناگواری کو کون اپنے سرلے ۔مگر یہ کوئی عذر نہیں ۔اگر ہمارے اسلاف بھی اس کا خیال کرتے تو آج ہم میں سے کسی کو بھی کلمہ شہادت نصیب نہ ہوتا ۔ (التواصی بالحق:ص ۱۷۹)عمل کی اہمیت اور اعمال میں تبلیغ کی ضرورت لوگ عقائد کو ضروری سمجھتے ہیں اعمال کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ چنانچہ تعریف میں کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص کے عقائد بہت اچھے ہیں ۔ اور اس تعریف کو کافی سمجھتے ہیں ۔اور صحت عقائد کے بعد اس کے اعمال پر نظر کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے ۔ اسی لئے اعمال کے متعلق امر بالمعروف ونہی عن المنکر بھی نہیں کرتے ۔بلکہ غضب یہ ہے کہ اعمال کی کوتاہی کو منکر