دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
شریف میں ہے ۔کہ ’’لَایَنْبَغِیْ لَلْمُؤْمِنِ اَنْ یُّذِلَّ نَفْسَہٗ‘‘ یعنی مومن کو مناسب نہیں کہ اپنے نفس کو ذلیل کرے ،صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا ، یا رسول اللہ مومن اپنے کو کس طرح ذلیل کرتا ہے ؟ آپ نے فرمایا :’’یَتَحَمَّلُ مِنَ الْبَلَائِ مَالَا یُطِیْقُہٗ‘‘ یعنی ایسی بلاء اپنے ذمہ لے لے جس کے تحمل کی طاقت نہیں ہے ۔ اب میں پوچھتا ہوں کہ جہاں جہاں یہ خطرہ ارتداد رونما ہیں کوشش کرنے سے پہلے یہ دیکھ لے کہ وہاں جانا اور تبلیغ کرنا حساً وقانوناً آپ کی قدرت میں ہے یا نہیں ۔ اسی طرح یہ بھی دیکھو کہ اس میں چند ہ دینا حساً یا قانوناً کوئی جرم تو نہیں ۔جب ان باتوں کا اطمینان ہوجائے تو پھر یہ متعارف (مروّج) تدبیریں اختیار کرنی چاہئے ۔ اور قادر بقدرت غیر(یعنی دوسرے کی قوت کے سہارے وہ خود شرعاً) قادر نہیں ہوتا ۔ ایسی غیر مقدور چیز کی پیچھے پڑنا محض غلو ہے جس کی اسلام کو کوئی حاجت نہیں ۔ابھی تو صرف دوچار ہزار کے ارتداد کی خبر ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ اگر پندرہ بیس لاکھ بھی خدا نخواستہ مرتد ہوجائیں تو اسلام میں کچھ کمی نہیں آسکتی ۔ (ضرورت تبلیغ ملحقہ دعوت وتبلیغ:ص ۳۱۵)قدرت یعنی ضرر لاحق نہ ہونے کی شرط اس کی تفصیل یہ ہے کہ جو شخص امر بالمعروف ونہی عن المنکر پر قادر ہو یعنی قرائن سے غالب گمان رکھتا ہو کہ اگر میں امر ونہی کروں گا تو مجھ کو معتد بہ ضرر (قابل اعتبار نقصان) لاحق نہ ہوگا ۔ایسے شخص کے لئے امور واجبہ میں یہ تفصیل ہے کہ اگر ہاتھ سے (روکنے کی ) قدرت ہوتو ہاتھ سے اس کا انتظام واجب ہے، جیسے حکام، محکومین کے اعتبار سے یا ہر شخص اپنے اہل وعیال کے اعتبار سے ۔ اور اگر صرف زبان سے (منع کرنے کی )قدرت ہوتو زبان سے کہنا واجب ہے ۔ اور غیر قادر کے لئے صرف اتنا کافی ہے کہ تارکِ واجبات اور مرتکب محرمات (یعنی واجب