دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
جس کے پاس نہ علم ہو، نہ مال وہ کس طرح تبلیغ کرے سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک جماعت ایسی بھی توہے ، جس کے پاس نہ علم ہے نہ مال پھر وہ کیسے اس دعوت میں حصہ لے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر علم اورمال نہیں ہے ۔توخالی زبان توہے اس سے کام کرو ۔باقی یہ کہ زبان سے کیا کام کریں (تو زبان کا کام یہ ہے کہ ) زبان سے دعاء کیا کرو ۔کہ اے اللہ اسلام کو عزت دیجئے ۔اے اللہ اسلام کی نصرت کیجئے ۔ اوراے اللہ مسلمانوں کے دین کی حفاطت کیجئے ۔اے اللہ حق کو حق اور باطل کو باطل ظاہر کردیجئے ۔اور دین کی برکات کو عام اور تام کردیجئے ۔ یہ توایسی دعوت ہے کہ اس سے توکوئی بھی نہیں گیاگذرا ۔(یہ کام تو ہرشخص کرسکتا ہے ) مگر افسوس کہ بہتوں سے یہ بھی نہیں ہوسکتا ۔ اصل بات یہ ہے کہ دل میں فکر نہیں ۔ (الدعوت الی اللہ :ص۶۴)محض دعاء کافی نہیں دعاء کے ساتھ تدبیر بھی ضروری ہے دعا ء تدبیر سے مانع (روکنے والی) نہیں ۔کیوں کہ دعاء میں وہ تدبیریں بھی داخل ہیں (دعاء کی بھی دوقسمیں ہیں )ایک دعاء قولی ہے ۔ایک دعاء فعلی ہے… تواب دعا ء کے معنی یہ ہوں گے کہ جتنی تدبیر یں ہوسکیں سب کرو، اور پھر دعا ء بھی کرو ۔اور محض تدبیر پر بھروسہ نہ کرو۔ بھروسہ تودعاء ہی پرکرو۔یہ مضمون حدیث شریف کا ہے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ۔کہ اونٹ باندھ کر توکل کروں یا خدا کے بھروسہ پرکھلارہنے دوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’اعقل ثم توکّل ‘‘کہ باندھ دو، پھر خدا پر بھروسہ کرو۔ تویہ ہے توکّل ۔ اب اس میں اسی پر نظر کرنا الحاد اور بددینی ہے ۔اور محض خدا کے بھروسہ پر اسباب کا اختیار نہ کرنا حماقت