دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
بات کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اس دعوت الی اللہ کی فضیلت اتنی صاف بدیہی اور محسوس تھی کہ صرف پوچھنا کافی ہوگیا ۔گویا یہ کوئی کہہ ہی نہیں سکتا کہ اس سے اچھی فلاں بات ہے استفہام میں یہ بلاغت ہے۔ (الدعوت الی اللہ:ص۲۵)اس امت کی فضیلت دعوت وتبلیغ کی وجہ سے ہے ’’کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَامُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ‘‘(اٰل عمران) ترجمہ: اے امت محمدیہ تم لوگ سب اہل مذاہب سے اچھی جماعت ہو کہ وہ جماعت عام لوگوں کے نفع ہدایت پہنچانے کے لئے ظاہر کی گئی ہے اور نفع پہونچانے کی صورت(کہ وہی وجہ سب سے اچھی ہونے کی بھی ہے )یہ ہے کہ تم لوگ نیک کاموں کو بتلاتے ہو اوربری باتوں سے روکتے ہو اور خود بھی اللہ پر ایمان لاتے ہو ۔(بیان القرآن) دیکھئے قرآن میں جہاں اس امت کے فضائل بیان کئے گئے ہیں ان میں بطور خصوصیت کے اصلاح غیر (یعنی دعوت وتبلیغ کے ذریعہ دوسرے کی اصلاح کرنے کو )بھی ذکر کیا گیا ہے چنانچہ اس (مذکورہ )آیت میں اس امت کی تین فضیلتیں بیان فرمائی ہے ۔ جن میں ایمان باللہ کی فضیلت تو ہر شخص کے پاس اپنے لئے ہے اور باقی دوفضیلتیں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ،یہ دوسروں کے نفع کے لئے ہیں ، کیوں کہ اس سے دوسرے پر نفع کا اثر پہنچتا ہے ۔اور قواعد کا مقتضایہ تھا کہ (تومنون باللّٰہ کو مقدم فرماتے کیوں کہ وہ اساس اعمال (یعنی تمام اعمال کی بنیاد )ہے مگر موخر کرنے میں غالباً یہ نکتہ ہے کہ عوارض پر نظر کرکے اصلاح غیر کا اہتمام (یعنی دوسروں کی اصلاح کا اہتمام ) زیادہ مقصود ہے، کیونکہ اپنی ضرورت کا اہتمام تو ہر شخص خود ہی کرلے گا ورنہ فی نفسہٖ اپنی اصلاح غیر کی اصلاح سے مقدم ہے ۔ (وعظ ضرورت تبلیغ ملحقہ دعوت وتبلیغ :ص۲۹۸)