دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
جب ذرا جی ٹھنڈا ہوگیا تو آگے فرماتے ہیں کہ اگر صبر کر وتووہ بہت ہی اچھا ہے ،پھر آگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خاص طور پر صبر کا خطاب ہے ’’وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ اِلَّا بِاللّٰہِ‘‘ کہ آپ تو ضرور صبر کریں ، یہ دوسر’’اصبر‘‘ ہے جس کا حضور سے خطاب ہورہا ہے یعنی آپ کو خود رنج ہوتا تھا ان کے برا بھلا کہنے سے َواصبِر میں تو اس پر صبر کرنا مراد ہے اور ’’لَئِنْ صَبَرْتُمْ ‘‘ میں لڑائی بھڑائی نہ کرنااور بدلہ نہ لینا مراد ہے ۔ (الاتمام لنعمۃ الاسلام:ص ۷۵)تبلیغ میں صبر اور بحث مباحثہ سے اجتناب کی ضرورت ’’تَوَاصُوْا بِالصَّبْرِ‘‘ میں مبلغ کو تنبیہ ہے کہ جب تم دوسروں کو صبر کی (یعنی اعمال میں استقلال کی) نصیحت کرتے ہو، ذرا خود بھی تبلیغ میں صبر واستقلال سے کام لینا ۔ کیوں کہ تبلیغ میں بعض ناگواریاں بھی پیش آتی ہیں ۔ اگر صبرواستقلال سے کام نہ لیا توتبلیغ دشوار ہوجائے گی ۔ (التواصی بالحق:ص ۱۷۸)صحابہ کی حالت کفار کی گستاخیوں پر مسلمانوں کو بے حد غیظ وغصہ آتا تھا۔ وہ نامعقول یہ حرکت کرتے تھے کہ اپنے اشعار میں مسلمانوں کی بیویوں کا نام لے لے کر عشق کا اظہار کرتے تھے ۔ اس سے بڑھ کر اور کیا گستاخی ہوگی ۔اور اس سے بھی بڑھ کر ایک اور بھی گستاخی کرتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی کو بجائے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مذمّم کہتے تھے (نعوذ باللہ )کیوں کہ جس طرح محمدکے معنی ’’بہت زیادہ قابل تعریف، اچھے اخلاق والا‘‘ کے ہیں اسی طرح مذمم کے معنی اس کے مقابلہ میں ہیں (یعنی بہت زیادہ برا، قابل مذمت) خیال تو کیجئے کہ مسلمانوں کو کس قدر ناگوار ہوتا ہوگا کہ جان لینے اور جان دینے کو تیار ہوجاتے ہوں گے ۔مگر اتنی بڑی گستاخی اور ایسا سخت غصہ دلانے والی حرکت پر حق تعالیٰ کی تعلیم سنئے! فرماتے ہیں ۔