دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
کیا جو نمازی ہے وہ بھی برا مانے گا ۔(ص۱۰۹) منجملہ آداب کے ایک ضروری ادب یہ ہے کہ مستحبات میں مطلقاً نرمی کرے ۔اور واجبات میں اولاً نرمی اور نہ ماننے پر سختی کرے ۔ (بیان القرآن :ص۴۵؍ج۲، آل عمران) (لیکن سختی صرف وہی کرسکتا ہے جس کو سختی سے تبلیغ کرنے کا حق ہے جس کی تفصیل خود اسی کتاب میں موجود ہے ۔)سختی مقصود بالذات نہیں اصل میں سختی مقصود بالذات نہیں ۔مقصود اصلاح ہے ،جب معلوم ہوجائے کہ سختی سے نفع نہیں ہوتا تونرمی سے اصلاح کرتا رہے ،مگر اس میں ضبط( برداشت کرنے )کی ضرورت ہے جو مشکل ہے ۔کیونکہ یہ تو آسان ہے کہ بالکل نہ بولے ۔اور یہ مشکل ہے کہ ناگواری میں نرمی سے بولے ۔خاص کر جب دوسرا ٹیڑھا (نافرمان )ہوتا چلا جائے ۔اور گھروالوں کا حال خود ہی ہرشخص جانتا ہے کہ نرمی سے اصلاح ہوگی ۔یا سختی سے ۔محض سختی سے کچھ نہیں ہوتا ۔ میں جو لوگوں کے ساتھ ان کی اصلاح کے لئے سختی کرتا ہوں ۔اب چھوڑ دوں گا ۔کیونکہ کچھ نفع نہیں ہوتا ۔ (دعوات عبدیت:ص ۵۷؍ج۱۹)دعوت وتبلیغ میں نرمی اختیار کرنے کا فائدہ مولانا مظفر حسین ؒ کی حکایت کسی طاعت کا حکم دینے (یعنی دعوت وتبلیغ امر بالمعروف ونہی عن المنکر ) کرنے سے ناگواری اسی وقت ہوتی ہے جبکہ سخت لہجہ سے کہا جائے ورنہ اگر مناسب طریقہ سے کہا جائے تو ناگواری نہیں ہوتی۔ واعظین (اورمبلغین) کو ہمیشہ اس کا خیال رکھنا چاہئے ۔