دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
اس کے علاوہ قرآن وحدیث میں اسی مضمون کے اور بے شمار نصوص امر بالمعروف نہی عن المنکر ، اور وعظ وتذکیر کے عنوان کے نہایت تاکید واہتمام کے ساتھ مذکور ہیں اور اس میں سستی وترک پرشدید وعیدیں بھی وارد ہیں ، نیز انبیاء علیہم السلام کا خاص فریضہ یہی رہا ہے ۔ اس کے بعد امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے ضروری ہونے میں کیا شبہ رہا ۔ (تجدید تعلیم وتبلیغ: ص۱۸۶) اس سورہ (والعصر)میں حق تعالیٰ نے ہم کو اس پر متوجہ کیا ہے کہ جب تک تم دین کامل نہ کروگے خسارہ میں رہوگے ، اور دین کا کمال دوباتوں پر موقوف ہے، ایک اپنی تکمیل (اصلاح)پھر دوسروں کی تکمیل ۔ دوسروں کی تکمیل تودعوت اور تبلیغ سے ہوتی ہے ۔اور اس کے دومحل ہیں ، دونوں کو حق تعالیٰ نے اس جگہ بیان فرمایا ہے ایک کو لفظ ’’حق ‘‘سے اور دوسرے کو لفظ ’’صبر‘‘ سے ، حق سے مراد اصول (عقائد) ہیں اور صبر سے مراد فروع (احکام) ہیں اسی کو میں نے کہا تھا کہ تبلیغ اصولاً بھی فرض ہے اورفروعاً بھی۔ یایوں کہئے کہ حق سے مراد علوم ہیں اور صبر سے مراد اعمال ہیں … حاصل یہ ہوا کہ خسارہ سے وہ لوگ بچے ہوئے ہیں جو خود بھی ایمان لائیں اور دوسروں کو بھی ایمان کی ترغیب دیں اور خود بھی عمل صالح کریں اور دوسروں کو بھی عمل صالح کی نصیحت کریں ۔ (التواصی بالحق:ص۱۶۸)دعوت وتبلیغ کا حکم ’’اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبَّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ‘‘ یعنی اے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آپ لوگوں کو اللہ کے راستہ کی طرف حکمت اور موعظت حسنہ کے ساتھ بلائیں …ظاہر ہے کہ ’’ادع ‘‘ کا خطاب حضور کو ہے مگر حکم حضور کے ساتھ خاص نہیں بلکہ رسول اور متبعین سب اس کے مخاطب ہیں ، ہاں حضور کو خطاب اولاً ہے اور دوسروں کو ثانیاً ۔ اب دیکھنا چاہئے کہ اس باب میں ہماری کیا حالت ہے اور ہم کو اس حکم کی طرف توجہ ہے یا