دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
ایک حکایت اللہ کے بندے ایسے بھی ہوتے میں کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر میں اندیشہ تو کیا واقعی اذیت بھی پہونچ جائے تب بھی وہ باز نہیں آتے۔چنانچہ ایک حکایت ہے کہ ایک مقام پر جامع مسجد میں ایک عطر کا تاجر آیا، جماعت کے بعد لوگ حسب معمول سنتیں پڑھنے لگے اتفاق سے نمازیوں میں کوئی بڑے عہدہ دار بھی تھے، وہ سنتوں میں وہی رسمی اٹھک بیٹھک کرنے لگے ۔جس میں ارکان کی تعدیل نہ تھی ۔ جب سلام پھیرا تو اس تاجر نے جو ایک غریب آدمی تھا ، سامنے آکر سلام کیا اور عرض کیا کہ حضور آپ کی نماز ٹھیک نہیں ہوئی۔ اسے پھر دوبارہ پڑھ لیجئے ۔کیوں کہ مجھے آپ کے وقت کا بڑا قلق ہے کہ یوں ہی رائیگا ں جارہا ہے ۔اس نماز سے آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔بس اتنا سننا تھا کہ مارے غصہ کے آگ بن گئے ، کہ نالائق بیہودہ تیری یہ جرأت ؟ ارے تجھے کیا چپ رہ ۔خبردار اگر پھر ایسی گستاخی کی ۔اس نے کہا صاحب! یہ گستاخی نہیں خیر خواہی ہے کہ نماز پھر پڑھ لیجئے ۔بہر حال دونوں میں یہاں تک گفتگو بڑھی، کہ عہدہ دار نے اسے مارا ۔اس نے کہا کہ آپ اور مارلیجئے مگر میں آپ کو مسجد سے نہ نکلنے دوں گا، جب تک آپ نماز نہ دہرائیں گے ۔جب شور وغل زیادہ ہوا تو چاروں طرف سے لوگ جمع ہوگئے اور عہدہ دار صاحب سے کہا کہ اس میں اس قدر برا ماننے کی کیا بات ہے ۔سچ تو کہتا ہے ، کیوں نہیں پھر پڑھ لیتے ۔ غرض اس نے انہیں پھر نماز پڑھوائی ۔پھر تو ایسی تعدیل سے (ٹھہر ٹھہر کر) پڑھی کہ شاید عمر بھر میں یہ پہلی نماز ہوگی ، کیوں کہ اگر یہ بھی ویسی ہی پڑھتے تو پھر جھگڑا ہوتا ۔ جب وہ عہدہ دار نماز پڑھ کے چلے گئے توبستی میں تاجر کی خوب شہرت ہوئی ۔لوگ اسے بزرگ سمجھنے لگے ، اور جدھر جاتا ہے لوگ کہتے ہیں کہ حضرت ذرا ، یہاں بیٹھ جائیے ۔ اور ذرا ہمارے گھرتشریف لے چلئے۔ اب لوگ ضرورت سے نہیں ، بلکہ تبرکاً عطر خریدتے ہیں ، داموں میں