دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
دین کی حفاظت کے دوطریقے دین کی حفاظت دوطرح سے ہوتی ہے ، ایک بیرونی حملوں کو روکنا دوسرے خود اندرونی بنیادوں کو مضبوط کرنا، لوگوں نے حفاظت کے صرف یہ معنی سمجھے ہیں کہ اوروں سے لڑنے لگے، یعنی بیرونی حملوں کو روکنا شروع کردیا اور اس کو کافی سمجھ لیا، بیرونی حملوں کو روکنے سے زیادہ اہتمام اندرونی آثار استحکام کا کرنا چاہئے ، کیوں کہ حفاظت کے لئے دونوں جزء کی ضرورت ہے ، ایک بیرونی حملہ سے بچانا ، دوسرے اندرونی حالت کو مکمل کرنا۔ اگر اندرونی حالت بالکل خراب ہو ، تو حفاظت ہوہی نہیں سکتی ۔ دیکھو اگر کوئی بادشاہ ہو ، اور وہ ساری فوج کو ختم کردے ،لڑائی کے سارے سامان کو برباد کردے ،سارے خزانے کو لٹادے اب اگر کوئی بادشاہ اس سے لڑائی کے لئے آمادہ ہوجائے تو کیا (یہ بادشاہ) کامیاب ہوسکتا ہے ؟ جب فوج نہیں ، خزانہ نہیں ، لڑائی کا سامان نہیں تو کیا خاک اپنے ملک کی حفاظت کرلے گا؟ اب بتلایئے اپنے ملک کی حفاظت کیوں نہ کرسکا؟ صرف اسی وجہ سے کہ اس نے اندرونی قوت کو بالکل تباہ اور کمزور کردیا تھا اس حالت میں وہ بیرونی حملوں کو کیسے روک سکتا ہے ، یہی حالت ہماری ہے کہ ہم حفاظت اسلام کے لئے محض، بیرونی حملوں کو دفع کرنا چاہتے ہیں ، اور اپنی حالت کی تکمیل (واصلاح) نہیں کرتے۔ افسوس ہے کہ اس وقت فتنہ ارتداد سے مسلمانوں کی گو ایک آنکھ توکھلی یعنی بیرونی حملوں کا کچھ بندوبست کیا ہے مگر اب بھی ایک بندرہ گئی یعنی اندرونی حالت درست کرنا۔ حضرات! میں مکرر کہتا ہوں کہ اندرونی حفاطت کی زیادہ ضرورت ہے ، اپنے اسلام کو راسخ کرنا ، شریعت کا متبع ہونا، یہ اندرونی حفاظت ہے ۔کامل مسلمان بن جائو ، احکام شریعت کی پورے طور سے پابندی کرو ، یہی نہیں کہ غیروں سے لڑنے لگو ۔بلکہ میں کہتا ہوں کہ خواہ لڑومت ، مگر اپنی حالت کو درست کرلو، ہرشئی کا ایک اثر ہوا کرتا ہے اسلام کامل کا بھی ایک اثر ہے ۔