دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
بہر حال تبلیغ کے متعلق متعدد خدمات ہیں ، پس ایک جماعت ایسی ہو جو اشاعت اسلام کرے اور ایک جماعت ایسی ہو ، جو مال سے ان کی مدد کرے ۔وغیرہ وغیرہ ۔ (آداب التبلیغ:ص ۱۰۴)دعوت وتبلیغ کے لئے مدارس کا قیام بہت ضروری ہے یہ شبہ نہ ہونا چاہئے کہ جب انبیاء علیہ السلام نے مدرسہ نہیں بنایا تو مدرسہ بے کار ہیں ۔ یہ بیکار نہیں ہیں ۔ یہ ایسے ہیں ۔ جیسے نماز کیلئے وضو، کہ جس طرح نماز کے لئے وضو ضروری ہے اسی طرح تبلیغ واشاعت دین کیلئے مدارس کا وجود ضروری ہے ۔ وہاں تو مدارس کی ضرورت اس لئے نہ تھی کہ علوم کا محفوظ رہنا عادۃً ان پر موقوف نہ تھا ۔سماع(سننے) سے علوم محفوظ تھے ۔اور وہاں رات دن ان کی تبلیغ واشاعت ہی سے کام تھا ۔ سفر میں ، حضرمیں ، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے ان حضرات کا شغل دعوت الی اللہ ہی تھا ۔ اب رہا یہ کہ پڑھناپڑھانا پھر کیوں ضروری ہوا۔اصل تو یہی تھا کہ ایک دوسرے کو یوں ہی کہتا رہے ۔مگر نہ سلف کا سا تقویٰ رہا ۔نہ حافظہ ۔اگر ایسے ہی رہنے دیا جاتا تو یہ اطمینان نہ تھا کہ سنے ہوئے مسائل یاد رہیں گے ۔دوسرے تقویٰ کی کمی سے دیانت بھی روز بروز کم ہوجاتی ہے ۔تو اس حالت میں یہ بھی اعتماد نہ تھا ۔کہ (دین کی بات جو )یہ نقل کرتا ہے یہ ٹھیک بھی ہے یا اپنی طرف سے کچھ کمی بیشی کررہا ہے ۔ جب یہ آثار ظاہر ہونے لگے توسلف صالحین کو توجہ ہوئی کہ دین کو ضبط کرنا چاہئے ۔ توتبلیغ واشاعت کے لئے علم صحیح کی ضرورت تھی اور اس کے محفوظ رکھنے کے لئے کتابوں کے لکھے جانے کی ضرورت ہوئی … اس طرح مدارس کی ضرورت پیدا ہوگئی ۔ کیوں کہ ناقص کی تبلیغ کا کچھ اعتبار نہیں تو تعلیم وتعلم بھی تبلیغ کی ایک فرد ہے ۔ (الدعوت الی اللہ :ص۲۴، آداب التبلیغ:ص ۱۰۵)