دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
یہی وجہ ہے کہ ہمارے کاموں میں فلاح (کامیابی نہیں )۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا ۔کہ قیامت کب آئے گی ۔آپ نے فرمایا جب کام غیر اہل کے سپرد ہوگا ۔میں خادمان اسلام کو خدمت چھوڑ نے کے لئے نہیں کہتا بلکہ یہ کہتا ہوں کہ وہ خود بھی عمل صالح کے پابند ہوجائیں مگر ریا سے نہیں کہ مجمع کو دکھانے کے لئے نماز پڑھ لی۔(الدعوت الی اللہ:ص ۶۵)مبلغین کو اپنی حالت درست کرنے اور خود عمل کرنیکی ضرورت چند کوتاہیاں اور بھی ہوتی ہیں ایک یہ کہ بسااوقات جو مبلغ ہوتے ہیں ۔خود ان کی حالت درست نہیں ہوتی ۔ اور اس سے بھی بڑے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے ۔کیوں کہ جب استاد ہی ناقص ہوگا تو شاگرد تو اور بھی ناقص ہوگا ۔ توسب سے پہلے مبلغ کو اپنے عمل کی اصلاح ضروری ہے تاکہ ان پر اچھا اثر پڑے۔ ایک بڑھیااپنے لڑکے کو ایک بزرگ کی خدمت میں لائی اور عرض کیا ۔کہ حضرت یہ گُڑبہت کھاتا ہے اسے نصیحت فرمادیجئے ۔ ان بزرگ نے فرمایا کہ کل لانا دوسرے دن بڑھیا اس لڑکے کو لائی ۔ان بزرگ نے نصیحت فرمادی کہ میاں گڑبہت مت کھایا کرو ۔ نقصان کرتا ہے ۔اس کے بعد اس لڑکے نے گُڑکھانا چھوڑدیا ۔خدّام نے پوچھا کہ حضرت ایک دن کی تاخیر میں کیا مصلحت تھی؟ فرمایا مجھے بھی گُڑ کھانے کی عادت تھی اب میں نے وہ عادت چھوڑ دی ،اگر اس وقت کہتا تو اثر نہ ہوتا اب میرے لہجہ میں قوت، اور زبان میں برکت ، اور قلب میں طاقت پیدا ہوگئی ۔ آپ تجربہ کرلیجئے کہ بدعمل ناصح (مبلغ) کا لہجہ نرم (دبے الفاظ میں )ہوتا ہے نہ برکت ہوتی ہے نہ قوت ہوتی ہے ، اس سے اثر بھی نہیں ہوتا ۔اگر کوئی بدعمل بتکلف اپنے لہجہ میں قوت پیدا کرے تو اس کی بے شرمی ہے ۔ (التبشیر:ص ۴۰۲)