دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
دینداروں کا حال جو لوگ سمجھدار اور دیندار ہیں وہ بھی دوسروں کے گناہوں کو شمار کرتے ہیں ۔دوسروں کے عیوب پر ہم لوگوں کی نظر ہوتی ہے ۔کبھی کسی کو نہ دیکھا ہوگا کہ اپنے اعمال کو عذاب کا سبب بتلایا ہو ، حالانکہ زیادہ ضرورت اسی کی ہے ۔رات دن ہمارا سبق یہ ہے کہ ہم ایسے اور ہم ویسے اور دوسرا ایسا اور ویسا ہے ۔ امام غزالیؒ کہتے ہیں کہ اے عزیز تیری ایسی مثال ہے کہ تیرے بدن پر سانپ اور بچھو لپٹ رہے ہیں اور ایک دوسرے شخص پر مکھی بیٹھی ہوئی ہے اور تو اس کو مکھی بیٹھنے پر ملامت کررہا ہے لیکن اپنے سانپ بچھو کی خبر نہیں لیتا ۔ ایک دوسرے بزرگ فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں کو اپنی آنکھ میں شہتیر بھی نظر نہیں آتا اور دوسرے کی آنکھ کے تنکے کاتذکرہ کررہے ہیں ۔حالانکہ اول تو یہ دونوں مستقل عیب ہیں ۔ کیوں کہ اپنے عیبوں کا نہ دیکھنا یہ بھی گناہ ہے ۔ اور دوسرے کے عیوب کو بے ضرورت دیکھنا یہ بھی گناہ ہے ۔اور بے ضرورت کے یہ معنی ہیں کہ اس میں کوئی شرعی ضرورت نہ ہو۔ (دعوات عبدیت نسیان النفس:ص ۸۷؍ج۱۲)ہماری بدحالی ہم لوگوں کی مجلسوں میں رات دن تمام مخلوق کی غیبتیں ، شکایتیں ہوتی رہتی ہیں ۔کیا ان سب باتوں سے سوائے بدنام کرنے کے اورکچھ مقصود ہوتا ہے؟ کچھ بھی نہیں ۔یہ لوگ ایک توغیبت کے گناہ میں مبتلا ہوئے ۔دوسرے ایک لایعنی فعل کے مرتب ہوئے ۔ عیب گوئی اور عیب جوئی سے اگر یہ مقصود ہے کہ اس شخص سے یہ عیب جاتا رہے اور اس کی اصلاح ہوتو کیا وجہ ہے کہ کبھی اس کے آثار کیوں نہیں پائے گئے کیا کبھی کسی شخص نے