دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
خیال کیوں نہیں کرتا ؟ نہیں ،بلکہ روپیہ کو اٹھاکر ضرور دیتے ہیں ، کیوں کہ سمجھتے ہیں ، کہ یہ دوست ہے اس سے بیچارہ کو نفع ہوگا، لائو اٹھاکر دیدو، اور سمجھا دو، یہ اس کے کام آئے گا ۔ اسی طرح ہر مسلمان کو چاہئے کہ جب اپنے بھائی مسلمان کو دیکھے کہ نماز نہیں پڑھتا ہے اور اس کی نماز چھوٹ گئی ہے تویہ سمجھے کہ گویا اس کا روپیہ کھوگیا ہے ۔بلکہ روپیہ اور اشرفی کی بھی اس کے سامنے کیا حقیقت ہے تو اس کو بھی ضرور سمجھادو، مگر یہاں یہ کہتے ہو کہ ہمیں کیا غرض پڑی؟ کیوں صاحبو! کیا نماز روپیہ سے بھی کم ہے؟ (الاتمام لنعمۃ الاسلام:ص ۱۰۹؍ج۱)مخاطب کے برا ماننے کا عذر اور اس کا حل تم ایک عذر کروگے کہ وہاں تو بتلانے سے دوسرا احسان مانے گا اور یہاں (دین کی بات بتلانے سے )برا مانتا ہے ۔حضرت ! یہ کوئی عذر نہیں ۔تم کہنے کے طریقے سے کہو، ہرگز کوئی برا نہیں مانے گا ۔اس طرح کیوں کہتے ہوجس سے دوسرا بھڑک اٹھے ۔تم توطعن وتشنیع سے کہتے ہو اس سے بے نمازی تو کیا جو نمازی ہیں وہ بھی برا مانے گا ۔مگر یہ مرض ایسا عام ہوگیا ہے کہ جو بے نمازی کبھی نماز کے لئے آتا ہے اس پر ضرور طعن کرتے ہیں ۔ صاحبو! کہنے کا اثر کیوں نہ ہو اور دوسرا برا کیوں مانے ، تم اس طریقہ سے کہہ کرتو دیکھو۔ آپ تو طعن سے کہتے ہیں ۔یوں تو اگر روپیہ بھی طعن سے اٹھاکردو، تو دوسرا ضرور برا مانے گا ۔مثلاً اتنے زور سے اس کے ابرو پر مارو کہ آنکھ پھوڑدو تو ضرور برا مانے گا ۔ غرض برے طریقہ سے کہا جائے گا تو دوسرا ضرور برا مانے گا ۔خواہ روپیہ کا معاملہ ہو یا نماز کا معاملہ ہو ۔اور اچھے طریقے سے (دیاجائے یا کہا جائے تو )ممنون ہوگا ۔ (الاتمام لنعمۃ الاسلام:ص ۱۱۰) کہنے کا بھی طریقہ ہوتا ہے کہنا کبھی صریح ہوتا ہے کبھی تدبیر سے ، موقع محل کا خیال کرنا چاہئے ۔ مگر کہنے کی فکر ہو۔اگر اسی دھن میں لگے رہو تو یہ طریقہ معلوم کرنے کا بھی شوق