دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
بہر حال ان سب کو تاہیوں سے احتیاط کرکے سرمایہ ضرور جمع کرو۔سرمایہ ہی اصلی چیز ہے اس کے بغیر ساری تجویزیں بیکار ہیں ۔ (ضرورت تبلیغ:ص ۳۲۱)مولویوں اور اہل علم پر تبلیغ نہ کرنے کا اعتراض اور اس کا تحقیق جائزہ ایک اعتراض مولویوں (اور اہل علم ) پر یہ کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ مخدوم بنے ہوئے گھروں ، اور مدرسوں ، اور مسجدوں میں بیٹھے رہتے ہیں ۔ اور قوم کی تباہی پر ان کو رحم نہیں آتا۔ اور گھروں سے نکل کر گمراہیوں کی دستگیری (ان کی ہدایت کی فکر) نہیں کرتے ۔لوگ بگڑتے چلے جاتے ہیں ۔کوئی اسلام کو چھوڑرہا ہے ، کوئی احکام سے بالکل بے خبر ہے لیکن ان کو کچھ پرواہ نہیں ۔حتی کہ بعض لوگ توبلانے سے بھی نہیں آتے ۔اور آرام میں خلل نہیں ڈالتے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ان لوگوں کو کوئی ضروری شغل نہ ہوتو (اعتراض کی )گنجائش بھی ہے ۔لیکن جو اسلام کی دوسری خدمات کررہے ہیں (مثلاً مدرسہ میں تدریس وتصنیف وتالیف اور فتویٰ نویسی وغیرہ جو کہ تبلیغ ہی کے شعبے ہیں ۔اور یہ کام بھی ضروری اور فرض ہیں ) توجب وہ بھی ضروری کاموں میں لگ رہے ہیں تو پھر اس شبہ (واعتراض) کی گنجائش کہاں ہے؟ دوسرے جس طرح علماء کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ ان گمراہوں کے گھر پہونچ کر ہدایت واصلاح کریں ۔خود ان گمراہوں کو یہ رائے کیوں نہیں دی جاتی کہ فلاں جگہ علماء موجود ہیں تم ان سے اپنی اصلاح کرلو ۔ تیسرے کیا اسلام کی یہ خدمت صرف علماء ہی کے ذمہ ہے دوسرے دنیادار مالدار مسلمانوں کے ذمہ نہیں ؟ ان کو یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ علماء کو معاش سے فراغ نہیں ۔آپس میں کافی سرمایہ یعنی روپیہ جمع کرکے علماء کی ایک جماعت کو خاص اسی کام کے لئے مقرر کریں ، اور ان کی کافی مدد