دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
نہیں توغور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم کو ادھر بالکل توجہ نہیں اعتقاداً ، تو اس کو مامور بہ سمجھتے ہیں بلکہ اس میں بھی غور کرکے دیکھا جائے تومعلوم ہوگا کہ جس درجہ کا مامور بہ ہے اس درجہ سے بہت کم سمجھا جاتا ہے اس کو واجب سمجھنے والے تو بہت کم لوگ ہوں گے ۔کوئی مستحب سمجھتاہے کوئی مستحسن ،اور غضب یہ کہ مستحسن سمجھنے میں بھی قید لگاتے ہیں کہ مستحسن (پسندیدہ)بھی جب ہے کہ مصلحت سیاسیہ کے خلاف نہ ہو ، ورنہ وہ بھی ندارد …لہٰذا مستحب بھی نہ رہا اب اس کو بالکل مامور بہ (واجب )نہیں سمجھتے بلکہ تعجب نہیں کہ ایک دن کسی مصلحت کی وجہ سے مامور بہ (واجب )کو منہی عنہ (ناجائز) بتلانے لگیں ۔ (آداب التبلیغ:ص۷۸)دعوت وتبلیغ کا فقہی حکم تبلیغ ہمارے اوپر فرض ہے اصولاً (یعنی عقائد کی ) بھی اور فروعاً (مسائل کی )بھی، اس کا فرض ہونا تو اس سے معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح ایمان وعمل صالح کا امر فرمایا ہے اسی طرح تواصی بالحق(یعنی وصیت کرنے)کا بھی حکم فرمایا ہے اور اس مجموعہ پر خسارہ سے بچنے کو موقوف کیا ہے ۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں :وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرِ اِلَّا الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوالصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْ بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْ بِالصَّبْرِ۔(پ۳۰) حق تعالیٰ اس جگہ قسم کھاکر فرماتے ہیں کہ قسم ہے زمانہ کی کہ انسان خسارہ میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کرتے رہے ۔ اور باہم ایک دوسرے کو حق کی وصیت کرتے رہے اور باہم ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کرتے رہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح ایمان وعمل صالح پر خسارہ سے بچنے کو موقوف کیا ہے اسی طرح ’’تواصی بالحق‘‘ پر بھی موقوف کیا ہے جس کے معنی ہیں ایک دوسرے کو دین کی نصیحت کرنا۔ دوسروں کو دین کی تبلیغ کرنا ۔ (التواصی بالحق :ص۱۵۵،۱۵۶)