دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
اور کسی سے کچھ نہ کہے بلکہ سب کے ساتھ صلح کل ہوکر رہے وہ تو درویشی ہے ورنہ نہیں ، اور اسی کے لئے ایک شعر گڑھا ہے اور اس کو حافظ شیرازی کی طرف منسوب کیا ہے لیکن احکام الٰہی کے سامنے کوئی چیز حجت نہیں ۔اس لئے یہ اشعار بھی کچھ حجت نہیں ،غرض امر بالمعروف یقینا واجب ہے ۔ (آداب التبلیغ:ص ۸۶،۹۸)پیرومرشد سے شکایت (ہم لوگوں کو )جن لوگوں پر (امر بالمعروف) کی قدرت ہے وہ دوقسم کے ہیں ۔ایک تووہ جنہوں نے التزام اطاعت کا ہم سے وعدہ نہیں کیا جیسے بیوی، بچے کہ گوشرعاً ان پر ہماری اطاعت واجب ہے مگر انہوں نے صراحتہً اس کا التزام نہیں کیا کہ تم ہم کو تبلیغ کرو، ہم تمہاری تعلیم پر عمل کریں گے ۔ مگر ایک تعلق ایسا ہے جس میں دوسرا شخص صریح معاہدہ سے ہماری اطاعت کا التزام کرتا ہے اور وہ تعلق پیری مریدی کا ہے۔ کیوں کہ پیری مریدی نام ہے معاہدہ اطاعت من جانب المرید ومعاہدہ تعلیم واصلاح من جانب الشیخ کا (یعنی مرید کی جانب سے اطاعت کا معاہدہ اور پیر کی جانب سے تعلیم واصلاح کا معاہدہ ہونا یہ حقیقت ہے، پیری مریدی کی) صرف ہاتھ لے کرسبق پڑھا دینے کا نام پیری مریدی نہیں جیسا کہ آج کل عام طور سے اس میں غلطی ہورہی ہے کہ ہاتھ میں ہاتھ دینے کو بیعت سمجھتے ہیں اور تعلیم واتباع کو ضروری نہیں سمجھتے … بیعت کی حقیقت یہ ہے کہ مرید کی طرف سے اتباع کا التزام ہو، اور شیخ کی طرف سے تعلیم کا التزام ہو۔ اب میری شکایت کا حاصل یہ ہے کہ جہاں صریح التزام اور اطاعت کا معاہدہ ہے غضب کی بات ہے کہ وہاں بھی آج کل تبلیغ نہیں کی جاتی (تعجب ہے) جہاں قدرت بھی ہے اور التزام بھی ہے وہاں حضرت شیخ کیسے خاموش ہیں جس میں ترک تبلیغ کے گناہ کے ساتھ وعدئہ خلافی بھی شامل ہے ،کیوں کہ جس طرح مرید نے اطاعت کا وعدہ کیا ہے ایسے ہی شیخ